فلسطینی مزاحمت کاروں کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت اور ترقی پذیر ڈرون ٹیکنالوجی نے دنیا بھرسے اسلحہ کے انبار جمع کرنےوالے بزدل صہیونیوں کے دلوں پرخوف اور دہشت طاری کرتے ہوئے ان کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ صہیونی ریاست کو اس بات کی حیر اور پریشانی ہےکہ فلسطینی مزاحمت کار بے سروسامانی کے باوجود ڈرون طیاروں جیسی ٹیکنالوجی کہاں سے حاصل کرتے اور یہ طیارے کس طرح تیار کرتے ہیں۔ اس نبوعیت کے ڈرون طیارے تو خطے میں اسرائیل کے علاوہ دوسرے ملکوں کے پاس بھی کم ہی دستیاب ہیں۔
اسرائیل کے عسکری ذرائع نے منگل کے روز بتایا کہ ‘حماس’ کی فوج اور دوسرے فلسطینی مزاحمتی گروپ زیرزمین دیوار تعمیر کررہےہیں تاکہ سرنگوں کو تباہ کرنے کا آپریشن ناکام بنایا جا سکے۔ یہ سرنگیں بیرون ملک سے فالتو پرزہ جات کی غزہ کو اسمگلنگ کا ایک ذریعہ ہیں جہاں ان پرزوں کو جوڑ کر ڈرون طیارے بنائے جاتے ہیں۔
اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ڈرون طیارے بنانا زیادہ مشکل نہیں۔ انٹرنیٹ پر ڈرون تیار کرنے کے طریقے موجود ہیں اور حماس چند ہزار شیکل خرچ کرکے جنگی مقاصد کے لیے استعمال ہونےوالے ڈرون بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر کئی کمپنیاں تیار شدہ ڈرون فروخت بھی کرتی ہیں۔ حماس کے عسکری ماہرین اور اسلحہ ساز ڈرون خرید کر انہیں تبدیلی کے بعد جنگی مقاصد کے لیے بنا سکتے ہیں۔
صہیونی فوج کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار زیرزمین دیوار کی تعمیر کے ساتھ ڈرون طیاروں کی اہمیت سے بھی آگاہ ہیں۔ حماس اور دوسری فلسطینی عسکری تنظیمیں بحری، فضائی اور بری محاذوںپر اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کررہی ہیں۔
صہیونی حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس دسیوں کی تعداد میں مسلح ڈرون موجود ہیں۔ ان ڈرون کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ اسرائیلی راڈار پرنہیںآتے اور انہیں میزائلوں سے مار گرانا بھی مشکل ہے۔
ممکن اور قابل عمل
عسکری اور سیکیورٹی امور کے فلسطینی ماہر رامی ابو زبیدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی سال سے ڈرون طیاروں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ عسکری تنظیمیں انہیں اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں حتیٰ کہ دنیا کی بڑی اور طاقت ور فوجیں بھی ڈرون کی اہمیت سے انکار نہیں بلکہ دھڑلے کے ساتھ ڈٍرون کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ابو زبیدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اندازہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار اپنے عسکری اہداف اور صہیونی ریاست کے خلاف ڈرون طیاروںکا استعمال کرسکتے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے ہربار صہیونی دشمن کو پانی کسی نا کسی دفاعی صلاحیت اور قابلیت سے حیران کیا۔ سنہ 1973ء کی جنگ، حزب اللہ کے میزائل جنہوںنے بحر متوسط میں اسرائیلی نیول فورس کو نشانہ بنایا، غزہ کی سرنگیں اور القسام کمانڈوز سب وہ واقعات ہیں جن میں دشمن کو حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی دشمن کو فلسطینی مزاحمت کاروں کی حقیقی دفاعی صلاحیت کا ندازہ نہیں اور یہ بات مزاحمتی قوتوں کے لیے مسرت کا باعث ہے۔
ابو زبیدہ نے کہا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے تیار کردہ ڈرون انتہائی نچلی پرواز میں اڑتے ہیں۔ اسرائیلی راڈار ان کی شناخت نہیںکرسکتا اور ان ڈرون کے ذریعے صہیونی تنصیبات کو نشانہ بنانا آسان اور زیادہ ممکن ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ سنہ 2014ء کو غزہ پر مسلط کی گئی اسرائیلی جنگ میں فلسطینی مزاحمت کاروںنے حملوں اور انٹیلی جنس مقاصد کےلیے ڈورن کا استعمال کرکے صہیونیوں کو ششدر کردیا تھا۔
اسرائیل فلسطینی مزاحمت کاروں کی ڈرون ٹیکنالوجی کو ختم کرنے کے لیے ان ماہرین کو نشانہ بنا رہا ہے جو ڈرون کی تیاری میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ 15 دسمبر 2016ٰء کو اسرائیل کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے’موساد’ کے ایجنٹوں نے تیونس میںایک خفیہ آپریشن میں حماس کے فلائیٹ انجینیر اور حماس کے ڈرون طیاروں کے بانی محمد الزواری کو شہید کردیا تھا۔ ان کی شہادت کے باوجود حماس کے ڈرون طیاروں کی تیاری اور ان کے حصول میں کوئی بڑی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔