اسرائیلی ریاست فلسطینی شہریوں ، سرکردہ سیاسی، سماجی اور مذہبی رہ نمائوں کو بغیر کسی الزام کے’انتظامی حراست’ کی ظالمانہ پالیسی کےتحت جیلوں میں غیرمعینہ مدت تک کے لیےقید کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
انتظامی حراست کیا ہے؟
انتظامی حراست صہیونی ریاست کی طرف سے بے قصور فلسطینیوں کو قید وبندمیں ڈالنے کا ایک مکروہ ہتھکنڈہ ہے۔ قید کا یہ طریقہ صہیونی ریاست کو برطانوی استبداد سے ورثے میں ملا ہے۔ فلسطین پر برطانیہ کے غاصبانہ قبضے کے دوران سرکردہ فلسطینی رہ نمائوں کو اپنے حقوق کے حصول کےلیے پرامن جدو جہد سے باز رکھنے اور انہیں میدان سیاست سے دور رکھنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا جاتا اور فلسطینیوں کو غیرمعینہ مدت تک پابند سلاسل رکھا جاتا۔ انتظامی قید کا کم سے کم عرصہ دو ماہ اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک ہے مگر یہ عرصہ ختم ہونے کے بعد قیدی کی رہائی لازمی نہیں بلکہ اسے بار بار قید کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کی مدت حراست میں مسلسل توسیع کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آج بھی کئی ایسے فلسطینی رہ نما ہیں جن چند ماہ کی انتظامی حراست میںقید کرنے کے بعد ان کی حراست میں بار بار توسیع کی جاتی رہی ہے اور ان کی قید کا عرصہ سالوں میں جا پہنچا ہے۔
حال ہی میں فلسطین کے ایک سرکردہ رہ نما الشیخ جمال الطویل نے اسرائیلی جیل میں انتظامی قید میں چار ماہ کی توسیع کے خلاف بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال شروع کی۔ ایک ہفتے تک جاری رہنےوالی بھوک ہڑتال کے بعد صہیونی حکام نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ان کی موجود مدت حراست ختم ہونے کے بعد اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد انہوں نے بھوک ہڑتال ختم کردی ہے۔
الشیخٰ جمال طویل پندرہ سال تک اسرائیلی زندانوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔ ان پندرہ برسوں میں 11 سال انتظامی قید کے تحت جیلوں میں قید رہے۔ یوں سمجھیں کہ قابض صہیونی ریاست نے الشیخ جمال طویل کو بغیر کسی الزام کے گیارہ سال تک جیلوں میں قید رکھا اور انہیں میدان سے دور رکھنے کی مجرمانہ پالیسی اپنائی گئی۔
اس وقت اسرائیلی جیلوں میں 7 فلسطینی انتظامی حراست کے خلاف بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں غرب اردن کے جنوبی شہر جنین کے 48 سالہ جعفر عزالدین بھی شامل ہیں جن کی مدت حراست دوسرے ماہ میں جاری ہے۔ بھوک ہڑتال کے باعث ان کی حالت کافی تشویشناک ہوچکی ہے۔
پرانی اور نئی پالیسی
جون 2019ء کو اسرائیل کی جیلوں النقب، عوفر، مجد اور دیگ رمیں انتظامی قید کے تحت اسیر فلسطینیوںکی تعداد 440 بتائی گئی ہے۔
فلسطینی قانون دان محمد کمنجی کا کہنا ہے کہ انتظامی قید کی پالیسی نئی نہیں ب لکہ صہیونی ریاست برسوں سے اس پرعمل پیرا ہے۔ برطانیہ کے ہنگامی قانون 111 کے تحت فوجیوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ فلسطینیوںکو بغیرکسی جرم کے قید کردیں۔
یہ قانون سنہ 1945ء کو منظور کیا گیا۔ صہیونی ریاست نے بھی اسی قانون کو اختیار کیا اور گذشتہ کچھ برسوں سے غزہ اور غرب اردن میںیہ پالیسی مسلسل جاری ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی انتظامی حراست میں بار بارکی توسیع ایک تلوار ہے جو اس قید کے تحت پابند سلاسل فلسطینیوں کی گردوں پر لٹکتی رہتی ہے۔ فلسطینیوں کو انتظامی قید کے تحت حراست میں لینے کے بعد دوسری، تیسری حتیٰ کہ دسویں بار بھی قید کی تجدید اور توسیع کے ظالمانہ عمل سے گذارا جاتا ہے۔
انہوںنے مزید کہا کہ صہیونی ریاست نے سنہ 1970ء کو ایک ملٹری بل منظور کیا جس کے آرٹیکل 87 میں فوج اور پولیس کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ فلسطینیوںکو دو سے چھ ماہ تک کی قابل تجدید انتظامی قید کے تحت حراست میں رکھ سکتے ہیں۔
اس ظالمانہ سزا کا ایک پہلویہ ہے کہ اس میں اسیران کو وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور قیدی ہراعتبار سے صہیونی جیلروں اور فوج کے رحم وکرم پرہوتا ہے۔
خوف ناک اعدا د و شمار
صہیونی جیلوں میں انتظامی حراست کی پالیسی کے تحت زیادہ تر سرکردہ رہ نمائوں کو رکھا جاتا ہے۔ ان کی سزا میں بار بار کی تجدید اور توسیع کی جاتی ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے سرکردہ رہ نما الشیخ حسن یوسف 14 سال تک صہیونی زندانوں میں انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل رہ چکے ہیں۔ ایک دوسرے فلسطینی رہ نما رزق الرجوب بھی ڈیڑھ عشرے تک کا عرصہ صہیونی زندانوں میں انتظامی قید کے تحت گذار چکے ہیں۔
بہت سے فلسطینی رہ نما ایسے ہیں جنہیں دو یا تین سال کی باقاعدہ قید کی سزا دی گئی اور اس کے بعد انہیں رہا کرنے کے بجائے انتظامی قید میں ڈال دیا گیا۔ اس طرح دو یا تین سال کی سزا کا عرصہ آٹھ اور دس سال تک جا پہنچا۔ ایسے فلسطینی رہ نما جو طویل عرصے تک انتظامی قید میں رہ چکے ہیں ان میں سابق وزیر وصفی قبہا اورالیشیخ خالد اور عبدالباسط الحاج بھی ان دسیوں فلسطینیوں میں شامل ہیں جو انتظامی قید کے تحت طویل عرصہ صہیونی زندانوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم’بتسلیم’ کے مطابق 62 فی صد انتظامی قیدیوں کی سزا میں تجدید کی گئی۔ اوسطا صہیونی فوج ہر ماہ 100 فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں دی جاتی ہیں۔
اسرائیل کی انتظامی عدالتیں اور ان کے جج صرف 75 اعشاریہ پانچ فی صد نمائشی ہوتے ہیں۔ ان عدالتوں اور ججوں کوفوج اور انٹیلی جنس کی طرف سےجو ہدایات ملتی ہیں وہ ان پرعمل کرتےہوئے فلسطینیوںکو انتظامی قید کی سزائیں دیتےہیں۔ 10 فی صد کیسز میں انتظامی عدالتوں کےجج انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے دی گئی سزا میں کمی بیشی کرتےہیں۔
فلسطینی محکمہ امور اسیران کےمطابق سنہ 1967ء کے بعد 55 ہزار فلسطینیوںکو انتظامی قید کی سزائیں دی گئیں۔ سنہ 1987ء سے 1994ء کے دوران 19 ہزارفلسطینیوںکو انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل کیاگیا۔ سنہ 2000ء سے2007ء تک 18 ہزار فلسطینی انتظامی قید کےتحت جیلوں میں ڈالے گئے اور سنہ 2007ء سے 2017ء تک 9 ہزار فلسطینیوںکو انتظامی قید کی سزائیں دی گئیں۔ گذشتہ برس انتظامی قید کی سزائیں کاٹنے والے فلسطینیوں کی تعداد 912 بتائی جاتی ہے۔