غزہ کی پٹی میں شہدا الاقصیٰ ہسپتال کی تیسری منزل پر بیڈ پر پڑا فلسطینی باپ اکرم الاستاذ جہاں اسے روز مرہ کے کاموں کے بارے میں مدد فراہم کی جاتی ہے ، بول نہیں سکتا۔
اسی مہینے کے آغآز میں 29 سالہ الاستاذ غزہ کی مرکزی پٹی میں البریج پناہ کیمپ میں واپسی کے عظیم مارچ میں شرکت کر دوران اسرائیلی گولیوں سے شدید ذخمی ہو گیا۔
قابض اسرائیلی فوج گذشتہ ہفتوں میں غزہ کی پٹی کی مشرقی سرحد پر تعینات رہے اور واپسی مارچ کے شرکاء کے خلاف گولیوں کا استعمال کرتے رہے جسکی وجہ سے مظاہرین کے جسموں کو سنگین نوعیت کے ذخم آئے۔
سخت تکلیف
ہسپتال کے کمرے میں درد کے اکرم کے قریبی دوست بننے کے بعد اکرم کے خاندان کے افراد اور رشتہ دار گروپوں کی صورت میں اسے پورا دن دیکھنے جاتے رہے
اکرم نے مزکز اطلاعات فلسطین کے نمائندے کو بتایا کہ میں سرحدی باڑ سے بہت دور کھڑا واپسی کے عظیم مارچ میں پر امن شریک تھا جب اچانک ایک گولی میرے پیٹ میں پیوست ہو گئی۔میں زمین پر گر پڑا اور میرا خون بہنا شروع یو گیا۔جب مجھے دوبارہ ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھا۔
کچھ دن پہلے اکرم کا آپریشن ہوا جسمیں ڈاکٹر نے اسکی آنت سے سے گولیوں کے ٹکڑے نکالنے کی کوشش کی ۔ شدید درد کے ساتھ صرف درد کشا ادویات کے ساتھ اسکا دن گزرتا ہے۔
اندرونی ضون بہنے کی وجہ سے اکرم کے منہ پر درد واضح ہے ، جبکہ ڈاکٹر ابھی تک آپریشن کے بعد اسکی آنت کے ٹھیک ہونے کے منتظر ہیں۔
اکرم نے کہا کہ میں ہمیشہ اپنی بیوی اور کیسے میرے زخموں نے میری نارمل زندگی کو متاثر کیا کےبارے مہیں سوچتا رہتا ہوں۔
صحت کی سنگین صورتحال
اکرم کے بھائی محمود نے کہا کہ اسرائیلی گولیوں نے اسکے بھائی کی آنت کے ٹکڑے کر دئیے اور ناقابل برداشت درد بمشکل اسے سونے دیتے ہیں۔ محمود نے مزید کہا کہ وہ ابھی تک کچھ بھی کھا پی نہیں سکتا۔
اکرم کے بچے اسے بہت یاد کرتے ہیں اور ہر روز پوچھتے ہیں کہ وہ انکے ساتھ کھیلنے کب آئیں گے۔اکرم کی اپنے بچوں سے دوری اسکےدرد کو دگنا کر دیتی ہے۔
شہداء الاقصیٰ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے اسکے زخموں پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے زرو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوجی پرامن مظاہرین کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا جس سے انکے پیٹ میں سنگین نوعیت کے زخم آئے ، انہوں نے مزید کہا کہ زخمی مظاہرین کی ذندگی کو شدید خطرہ ہے اور انکا دوبارہ روزمرہ زندگی میں واپس آنا بہت مشکل ہے۔