فلسطینیوں کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث انتہا پسند صہیونیوں کی اسرائیلی ریاست کی طرف سے حوصلہ افزائی کوئی نئی بات نہیں، اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ اس کی تازہ مثال ایک فلسطینی خاندان کو اس کے گھر میں گھس کر زندہ جلانے اور تین افراد کو شہید کرنے میں ملوث ایک مجرم کو فوج میں بھرتی کیا گیا ہے۔
عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اخبار’یدیعوت احرونوت’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس کے نواحی علاقے دوما میں 31 مئی 2015ء کو گھر میں گھس کر دوابشہ فلسطینی خاندان کو زندہ جلا نے میں ملوث ایک دہشت گرد کو پہلے عدالت سے بری کرایا اور اب اسے فوج میں بھرتی کیا گیا ہے۔
عبرانی میڈیا میں آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ دوابشہ خاندان کے قتل میں ملوث ایک دہشت گرد کو فوج میں بھرتی کیے جانے کا معاملہ پانچ ماہ قبل ہونے والی اس پیش رفت کے بعد دیکھا گیا ہے جس میں اسرائیلی عدالت اور پراسیکیوٹر کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں دوابشہ خاندان کے قاتلوں کو بری کردیا گیا تھا۔ اس سے قبل دوابشہ خاندان کے قتل میں ملوث ایک آباد کار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق فی الحال یہ واضح نہیں کہ فلسطینی خاندان کو زندہ نذرآتش کرنے کے جرم میں ملوث انتہا پسند کو فوج میں بھرتی کیے جانے کو چیلنج کیا جائے گا یا نہیں کیونکہ اس کے خلاف عدالت میں فی الحال کیس موجود ہے اور عدالت اس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کررہی ہے۔
یہ دلخراش واقعہ 31 مئی 2015ء کو پیش آیا تھا جب یہودی انتہا پسندوں کےایک گروپ نے نابلس میں دوما کے مقام پر ایک فلسطینی خاندان کے گھر کوآگ لگا دی تھی جس کےنتیجے میں گھر میں موجود میاں بیوی اور ان کا ایک شیر خوار بچہ شہید اور چار سالہ بچہ جھلس کر شدید زخمی ہوگیا تھا۔ بعد ازاں اسرائیلی فوج نے متعدد یہودی انتہا پسندوں کو اس جرم میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا جس انہیں عمر قید سمیت کڑی سزائیں سنائی گئی تھیں مگر بعد ازاں اسرائیلی عدالتوں نے حکومت اور مجرموں کےساتھ ملی بھگت سے ان کی سزائیں ختم کرنا شروع کردیں اور اب انہیں اس وحشیانہ فعل سے مکمل طورپر بری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔