چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینی اسیران کے لیے زندگی وقف کرنے والی ‘فاطمہ صندوقہ ‘

منگل 15-اکتوبر-2019

جون 1967ء کی جنگ کی شکست کے بعد 13 سال قبل اپنیی وفات تک بیت المقدس کی بہادر ماں فاطمہ صندوقہ نے اپنی زندگی اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کے حقوق کے لیے وقف کردی تھی۔

فلسطین میں اسیران کے حقوق اور ان کی بہبود کے لیے ہونے والی کسی بھی سرگرمی میں فاطمہ پیش پیش رہیں اور ان کی اسیران کے دفاع کے لیے جدو جہد کے اعتراف میں انہیں آج ‘ ام اسیران’ قرار دیا جاتا ہے۔

اپریل 1968ء کو قابض اسرائیلی حکام نے فاطمہ صندوقہ کے جواں سال بیٹے احمد محمد مخیمر کو دیگر فلسطینی اسیران کے ایک گروپ کے ساتھ حراست میں لیا۔ ان پر تل ابیب میں متعدد بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا گیا۔ ان بم دھماکوں کے نتیجے میں درجنوں یہودی فوجیوں اور آباد کاروں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

اسرائیل کی فوجی عدالت نے نوجوان احمد مخمیر کو بم دھماکوں اور یہودی آباد کاروں کو ہلاک کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی۔ اس پر اسیر کی ماں فاطمہ صندوقہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ الحمد للہ ہمارے ملک میں ایسے نوجوان موجود ہیں جو قوم کےسر کا فخر ہیں۔

فاطمہ صندوقہ پرانےبیت المقدس کے علاقہ ازقہ میں 1928ء کو پیدا ہوئیں۔ بچپن ہی سے وہ جرات اور بہادری کی وجہ سےمشہور ہوگئی تھیں۔ بعد میں انہوں نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی زندانوں پابند میں سلاسل اسیران کے دفاع کے لیے زندگی وقف کردی تھی۔

سابق فلسطینی اسیرمحمود کاکہنا ہے کہ فاطمہ صندوقہ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسیران کے دفاع کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہیں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے حقوق اور ان کے دفاع کے لیے سرگرم عمل رہیں۔ اسرائیلی زندانوں میں اسیران کوخوراک، پڑھنے کے لیے کتابیں، تعلیم اور ڈاکٹر کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی تھی۔ فاطمہ صندوقہ ان سہولیات کی فراہمی میں سرگرم رہتیں۔

سنہ 1969ء کے آخر فلسطینی اسیران کے حقوق کے لیے جدو جہد کرتے ہوئے فاطمہ صندوقہ نے مقبوضہ بیت المقدس میں قائم ریڈ کراس کے دفتر مین پہنچ کر اسیرات کو ان کے اہل خانہ سے ملاقات میں مدد کی درخواست کی۔

ریڈ کراس نے فلسطینی اسیران اور ان کے اہلخانہ کی ملاقات کی کوششوں کے ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور فاطمہ کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔  اسے کہا گیا کہ فاطمہ اور ریڈکراس کی ٹیم نے مل کراسیرات کےاہل خانہ کے دستخط حاصل کرنا شروع کیے۔

حقوق کے لیے جدو جہد

سنہ 1970ء کی دہائی میں فاطمہ صندوقہ نے مسلسل کوششوں کے ذریعے فلسطینی اسیران کے لیے کئی دیرینہ حقوق حاصل کرلیے۔ ان میں ایک اہم حق قیدیوں کے لیے چائے اور قہوے کا حصول تھا جس سے فلسطینی اسیران کو برسوں سے محروم رکھا گیا تھا۔

فاطمہ صندوقہ کی مساعی سے اسیران کو معائنے کے لیے علاج کا بھی حق فراہم کیا گیا۔

جیل میں قیدیوں کے معائنے کے لیے ڈاکٹروں کی خدمات کےحصول کے بارے میں بات کرتے ہوئے فاطمہ کی بیٹی نے کہا کہ اس کی ماں فاطمہ کو معلوم ہوا کہ اس کے بیٹے کو بیماری کی حالت میں ایک سے دوسری جیل میں ڈالا گیا مگر اسے طبی معائنے کے لیےڈاکٹر مہیا نہیں کیا گیا۔ اس نے ریڈ کراس سے رابطہ کیا اور بیٹے کو اسرائیلی جیل میں ڈاکٹر کی سہولت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ریڈ کراس کی مساعی کے نتیجے میں صہیونی حکام نے اسے جیل میں ڈاکٹر کی سہولت فراہم کی گئی۔

جن اسیران کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات نہیں کرائی جاتی تھی فاطمہ ان کے لیے اپنے گھر سے کھانا بناکر لی جاتی۔ یہاں تک کہ اسیران اسے ‘امی’ کہہ کر پکارنے لگے۔

ان کی بیٹی نفوذ کا کہنا ہے کہ جیل کے ہر دورے کے دوران وہ پانچ یا چھ اسیران سے ملاقات کی درخواست کرتی۔ وہ جیلروں کو بتاتی کہ فلافلاں اسیران میرے قریبی عزیز، بھانجے ، بھتیجے یا ان کے بھائی ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ میری ماں اسیران کے لیے مرجع خلائق بن گئی تھیں۔ جب بھی کسی فلسطینی کی گرفتاری کی خبر آتی تو فورا فاطمہ صندوقہ کو اطلاع دی دی جاتی۔

 حال ہی میں رہا ہونے والے احمد نے بتایا کہ اسے ‘نورس معاہدے’ میں رہا کیا گیا۔ اس معاہدے مین اسرائیل کے ایک قیدی کے بدلے میں 76 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرایا گیا۔ اس معاہدے میں احمد کی رہائی کے بعد انہیں اردن بدر کردیا مگر اس کے باوجود ان کی اسیران کے دفاع کے لیے مساعی مین کوئی کمی نہیں آئی۔

دھرنے اور احتجاجی سرگرمیاں

فاطمہ صندوقہ ایک خاتون ہونے کے باوجود اسیران کے حقوق کے دفاع کے لیے احتجاج منظم کرنے اور مظاہروں کی قیادت کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے کئی بار غرب اردن میں ریڈ کراس کے مرکز کے باہر دھرنے کی قیادت کی۔ اخبارات اور مقامی ریڈیو کے علاوہ دیگر ذرائع ابلاغ کو ترغیب دیتیں کہ وہ اسیران کے حقوق کے دفاع کے لیے ہونے والے دھرنوں کی کوریج کرین اور ان کے حقوق کی آواز کودنیا تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

معمول کے مطابق قابض صہیونی حکام نے اسیران اور ان کے اہل خانہ پرعرصہ حیات تنگ کرنا شروع کیا تو اس دوران فاطمہ کو صہیونی انٹیلی جنس حکام اسے بار بار طلب کیا جاتا اور انہیں ہراساں کرنے اور خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جاتی۔

انہیں بلیک میل کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اسیران کے حقوق کے لیے ان کی آواز کو دبایا جائے۔اسی انتقامی روش کے تحت سنہ 1969ء میں کا ایک مکان مسمار کردیا گیا۔

سنہ 1997ء کو فاطمہ صندوقہ کو ایک خطرناک بیماری لاحق ہوئی۔ اس کی زبان کام کرنا بھی بند ہوگئی۔ آخر کار چھ اکتوبر 2006ء کو فلسطینی اسیران کے دفاع کی یہ آواز ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی۔

مختصر لنک:

کاپی