فلسطین کے علاقے غزہ کے گرد اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ محاصرے کو 13 سال ہوچکے ہیں۔ محاصرے میں زندگی بسر کرنے والے غزہ کے باشندوں مناظر مختلف ہیں مگر ان کے مصائب و آلام ایک ہیں۔ کیا عام شہری، پیشہ ور، سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین، کاروباری حضرات سب کے سب بدترین مسائل اور پریشانیوں سے دوچار ہیں۔
غزہ کی پٹی کے 60 نوجوانوں نے ناکہ بندی اور فلسطینی نوجوانوں پر اس کے اثرات کو اجاگر کرنے کے لیے موسیقی ، ادب ، میڈیا اور فائن آرٹ کے شعبوں میں اپنی توانائی اور فنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔
اس منفرد مہم میں شریک افراد نے کسانوں، ماہی گیروں اوردیگر پیشوں سے وابستہ افراد، سیاحت کے شعبے ، بجلی اور انسانی حقوق کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد کو درپیش مشکلات کے اظہار کے لیے 12 دن تک مہمات جاری ہیں۔
مسلسل تکلیف
ایسوسی ایشن برائے ثقافت اور آزاد خیال کلچرل سنٹر کے ذریعے نافذ کردہ پروجیکٹ "کمیونٹی لرننگ” کے تحت یوتھ اجتماع پروگرام کو جرمنی کے روزا لکسمبرگ نے فنڈ فراہم کیے اور ان فنڈز کے ذریعے فلسطینی نوجوانوں نے غزہ کے عوام پر اسرائیلی ناکہ بندی پرمرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا۔
یوتھ پروگرام کے کوآرڈینیٹر ماہر داؤد نے کہا کہ بنیادی مقصد نوجوانوں کو معاشرے کے مفاد میں مثبت تبدیلی لانے اور تخلیقی طور پران کےہنرکا دفاع کرنے کے لیے قانونی طور ان کی معاونت کرنا ہے۔
کمیونٹی لرننگ پروجیکٹ کوآرڈینیٹر خلود ابو ظاہر نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ باصلاحیت نوجوانوں کو دیگر محصور نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کے خیال کا مقصد اس غزہ میں عوام کو درپیش مشکلات کو تخلیقی طور پر ظاہر کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں پر اسرائیلی ناکہ بندی کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ چاہے وہ فنکار ہوں ، کسان ، ماہی گیر اور دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد ہوں۔ ہم نے ہر گروہ کے دکھ کا مطالعہ کیا۔ہم ان تکلیف کے نتائج اورمصائب کا اظہار کرنے کے لیے تخلیقی انداز اپنایا۔
رنگا رنگ مناظر
جنات بورقہ نے غزہ کی پٹی کے عوام پر محاصرے کے منفی اور تباہ کن اثرات کے اظہار کے لیے شاعری کو ذریعہ بنایا۔
جنات بورقہ اور اس کےشوہر دونوں الگ الگ پیشوں سے منسلک ہیں مگر دونوں ہی اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ پابندیوں سے متاثر ہیں۔
انجینئرنگ میں ایم ایس سی کرنے والی جنات کا کہنا ہے کہ وہ کام سے عاری ہیں اور غزہ میں ماہی گیرکی اہلیہ کی حیثیت سے ان کی زندگی کا تجربہ اس ناکہ بندی کی وجہ سے روز مرہ کے مصائب سے متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے مصائب اور محاصرے کو بے نقاب کرنے کے میرے تجربے سے میرے جذبات اور شاعری لکھنے کا شوق بڑھ گیا ہے۔ سب سے زیادہ بات میں نے غزہ میں نوجوانوں کی خواہش کو دیکھا ، میرا شوہر ایک ماہی گیر ہے اور مگر صہیونی فوج کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کے باعث مشکلات سے دوچار ہے۔میں زمین کے ایک قطعے پرکاشت کاری بھی کرتی ہوں اور مجھے دوسروں کی طرح امداد اور تعاون کی بھی ضرورت ہے۔
ایک فنکارعاطف النجایلی نے پروں اور رنگوں کے ذریعہ غزہ میں ناکہ بندی کی شدت سے آگاہی فراہم کی ۔ اس نے غزہ کے متعدد سیاحتی مقامات کا دورہ کیا جس کے بعد اس نےبتایا کہ اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث سیاحتی مقامات میں ترقی کا فقدان ہے۔
محترمہ عزہ ابو زید ایسی صلاحیتوں کی مالک ہیں کہ انہوں نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ریاست کے مسلط کردہ محاصرے کو کہانیوں، افسانوں اور قصص میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔