فلسطینی اسیران اسٹڈی سینٹر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1967ء کی عرب ۔ اسرائیل جنگ کے بعد صہیونی ریاست نے 50 ہزار فلسطینی بچوں کو زندانوں میں قید کیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسیران اسٹڈی سینٹرکے ترجمان اور اسیران کےامور کے ماہر عبدالناصر فروانہ نے بتایا کہ فلسطینی بچوں کی گرفتاری صہیونی ریاست کی مستقل پالیسی بن چکی ہے۔ صہیونی ریاست فلسطینیوں کی نئی نسل کو ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت گرفتار کرکےاس کا مستقبل تباہ کرنا چاہتا ہے۔ فلسطینی بچوں کو بغیر کسی جرم کے قید میں ڈالنا اور انہیں طرح طرح کی سزائیں دینا ان کے مستقبل کو تباہ کرنے کی منظم سازشوں کا حصہ ہے۔
انہوں نے فلسطینی بچوں کی گرفتاری سے متعلق یہ اعدادو شمار 20 نومبر کو بچوں کے عالمی دن کے موقع پر بیان کیے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں فروانہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں اور اُنہیں جیلوں میں ڈالنے کے حوالے سے صہیونی ریاست عالمی قوانین کی پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اس وقت بھی اسرائیلی زندانوں میں 200 فلسطینی بچے پابند سلاسل ہیں۔
ان کا کہناہے کہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید فلسطینی بچوں کو جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کے بدترین حربوں کا سامنا ہے۔
سنہ 1967ء کے بعد اب تک اسرائیلی فوج نے 50 ہزار فلسطینی نونہالوں کو زندانوں میں ڈالا۔ سنہ 2015ء کو انتفاضہ القدس کے آغاز کے بعد 6200 فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا گیا۔
سنہ 2000ء سے 2011ء تک سالانہ اوسطا 700 فلسطینی بچوں کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی رہی۔ اس کے بعد اوسطا سالانہ 1250 فلسطینیوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ گذشتہ ماہ اکتوبر میں 745 فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا گیا۔