ایک طرف فلسطینی اتھارٹی دن رات معاشی بحران کا سامنا کرنے کا واویلا کر رہی ہے اور بہانے کی آڑ میں فلسطینی اسیران اور شہداء کے خاندانوں کو ان کے الائونسز سے بھی محروم کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کی بے مقصد کاموں پر بھاری رقوم خرچ کرنے کے واقعات نے فلسطینی عوام کو سخت برہم کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین کے سرکاری ٹی وی چینل پرحال ہی میں ایک ٹی ڈرامہ نشر کیا گیا جس میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی شخصیت کی غیرمعمولی ترویج اور ان کی تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے۔ عجب تماشا یہ ہے کہ فلسطینی شہریوں کو ان کے بنیادی معاشی حقوق سے محروم کرنے والی فلسطینی اتھارٹی نے اس بے مقصد ٹی وی شو پر دو لاکھ ڈالر کی خطیر رقم صرف کر ڈؑالی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے اس اقدام پر عوامی حلقوں کی طرف سے سخت غیض وغضب کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
فلسطین ٹی وی پر نشر کردہ اس ڈرمے کے لیے’امن کا فرشہ’ کا عنوان منتخب کیا گیا ہے۔ یہ لقب 2015ء کو ویٹی کن کے سربراہ اور پاپائے روم کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو دیا گیا تھا۔
فلسطین ٹی وی چینل کے جنرل مینجر خالد سکر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری شعبہ اطلاعات کے جنرل سپر وائزر احمد عساف اور وزیر اطلاعات احمد عساف نے ٹی وی شو پراٹھنے والے اخراجات پورے کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے آرٹ کے اس ‘شاہکار’ کی تیاری اور اس کی پیش کاری میں دل کھول کرپیسے دیے ہیں۔ خیال رہے کہ ‘امن کا فرشہ’ نامی یہ ڈرامہ وزیراطلاعات احمد عساف کا تحریر کردہ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ایک ٹی وی شو پرخطیر رقم خرچ کرنے پر فلسطینی سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے اور عوام نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔
سماجی کارکن عامر حمدان کا کہنا ہے کہ خالد سکر کی طرف سے وزیر اطلاعات احمد عساف کے بارے میں جو کچھ کہاگیا ہے وہ درست ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ احمد عساف نے اپنی جیب سے اس ٹی وی ڈرامے پر رقم خرچ کی ہے۔ان کا مزید کا کہنا ہے کہ احمد عساف مرنے کے بعد بھی سخاوت کریں گے۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں جب وہ مرجائیں گے تو ہم ان کی قبر پر لکھیں کہ اس شخص نے پوری عمر اللہ کی اطاعات، بھائی چارے اور سخاوت میں گذاری۔
صحافی فادی العاروری کا کہنا ہے کہ ٹی وی پروڈکشن ایک شاندار آرکسٹرا ہے۔ اس میں بہترین موسیقی کا اہتمام کیا گیا مگر میرے لیے اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس پر قومی خزانے سے کتنا پیس خرچ کیا گیا اور اس کا قوم کو کیا فائدہ پہنچا ہے۔ کیا دوسرے عرب ممالک کی طرف ہم اس طرح کی شہ خرچیوں اور عیاشیوں کے متحمل ہوسکتے ہیں۔
بار بار ڈیلیٹ کیا جانا
فلسطینی عوام کی طرف سے اس نام نہاد ٹی وی شو پرعوامی مخالفت کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے ویڈیوشیئرنگ ویب سائٹ’یوٹیوب’ پر پوسٹ کیا گیا مگر اسے پسند کرنے کے بجائے سب سے زیادہ ناپسند کیا گیا جس کی وجہ سے اسے باربار یوٹیوب چینل سے ہٹایا اور دوبارہ پوسٹ کیاگیا۔ عوام کی طرف سے اس پر رد عمل کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے 6000 لوگوں نے یوٹیوب پر ناپسند جب کہ صرف 250 نے پسند کیا۔
عوام کی طرف سے ناپسند کیے جانے کے خوف سے اسے کسی دوسرے سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم پر پوسٹ نہیں کیا گیا جب کہ یوٹیوب پر اس کے تبصروں والے حصے کو بھی اوپن نہیں کیا گیا کیونکہ اس پر سخت عوامی تبصروں کا قوی امکان ہے۔
محمود عباس کی جعلی تعریفوں کی بھرمار
سوشل میڈیا پر اس ٹی وی ڈرامے پر آنے والے عوامی رد عمل میں شہریوں نےاس کے فنی اور تکنیکی پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 10 منٹ کے آپیریٹا میں محمود عباس کی تعریف وتوصیف کی بھرمار کی گئی ہے۔ اس میں بیان کردہ باتیں محمود عباس کی شخصیت کا الٹ ہیں۔ ان کے بارے میں جس طرح کی باتیں کی گئیں۔ وہ ان کی شخصیت میں نہیں۔ جن خوبیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ اس کے برعکس ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ محمود عباس کیسے امن کے فرشتے ہیں جب کہ ان کی ناک تلے اور ان کی اپنی ہدایت پر سیاسی کارکنوں سے جیلیں بھری ہوئی ہیں۔ وہ کیسے امن کے فرشے ہیں کہ ان کے زیرانتظام عقوبت خانوں میں سیاسی قیدیوں کو غیرانسانی تشدد کا سامنا ہے۔