14 دسمبر 1987ء کو قائم ہونے والی اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ اپنے سفر کے 32 ویں سال میں داخل ہوگئی ہے۔ حماس اس وقت اپنے قیام کی 32 ویں سالگرہ اس عزم کے ساتھ منا رہی ہے کہ تحریک آزادی فلسطین کے لیے مسلح جہاد اور مزاحمت کا سفر جاری رکھا جائے گا۔
چودہ دسمبر فلسطینی تاریخ کے سنگ ہائے میل کا ایک اہم موڑ ہے اور ہر سال حماس اپنے عزم کی تجدید کےساتھ جہاد، مزاحمت اور لازوال قربانیوں کے سفر کی تجدید کرتی ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کےنام سے فلسطینی تنظیم سنہ 1987ء میں اس وقت قائم کی گئی جب کہ فلسطین میں تحریک انتفاضہ اقصیٰ جاری تھی۔
حماس کی تاسیس کے لیے 11 دسمبر 1987ء کو جنوبی غزہ کی الصبرہ کالونی میں نزار عوض اللہ فلسطینی رہ نما کی رہائش گاہ پر اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کے مضمرات پرغور کیا گیا اور وہیں سے فلسطینیوں کی قابض اسرائیل کے خلاف تحریک کو ‘انتفاضہ’ کا نام دیا گیا۔
جماعت کے تاسیسی اجلاس کی صدارت الشیخ احمد یاسین نے کی۔ الشیخ احمد یاسین کو 22 مارچ 2004ء کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں بمباری کرکے شہید کردیا۔ اس کے ایک ماہ بعد 17 اپریل 2004ء کو صہیونی فوج نے حماس کے دوسرے سربراہ ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی کو بھی شہید کر دیا۔ اجلاس میں صلاح شحادہ بھی شریک ہوئے۔ شحادہ کو اسرائیل 22 جولائی 2002ء کو شہید کیا جب کہ محمد شمعہ کو 10 جون 2011ء کو شہید کیا گیا۔ تاسیسی اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں عبدالفتاح دخان، ابراہیم الیازوری، عیسیٰ النشار بھی شریک تھے۔
حماس کے تاسیسی اجلاس میں تحریک انتفاضہ کو زیادہ سے زیادہ موثر انداز میں آگے بڑھانے، غزہ ، غرب اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اس کا دائرہ وسیع کرنے اور تمام ممکنہ وسائل استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
حماس کی جڑیں سنہ 1950ء کے عشرے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ حماس عرب ممالک اور اسلام کی تحریکوں کے اثرات کا نتجہ ہے۔ سنہ 1936ء میں فلسطین میں عزالدین القسام نے برطانوی استبداد کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ حماس کے قیام کے پیچھے اخوان المسلمون، سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطین پر صہیونی یلغار کے اثرات اور سنہ 1968ء سے قبل ہونے والی جنگ اور اس کے بعد کے حالات کے نتیجے میں حماس کا قیام ناگزیر تھا۔ حماس کے قیام سے قبل فلسطین میں اسلامی تحریک، مسلم یوتھ اور اسلامی سوسائٹی کے ناموں سے تنظیمیں موجود تھیں اور نہی کی قیادت نے حماس کے نام پر اتفاق کیا تھا۔
حماس اس بات پر زور دیتی ہے کہ قابض اسرائیلی ریاست کے خلاف مزاحمت اس کے فلسطینی پروگرام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ حماس اپنی جدو جہد کے لیے ابلاغی، سیاسی اور سفارتی محاذوں پرکام کرنے پربھی یقین رکھتی ہے۔ حماس اپنے مشن یعنی فلسطینی کی آزادی کے لیے نہ صرف اندرو ملک بلکہ عرب ممالک ، عالم اسلام اور عالمی سطح پر کام کررہی ہے۔
حماس نے اپنے قیام کے ابتدائی عرصے کو’تیاری کا مرحلہ’ قرار دیا۔ دوسرے مرحلے میں حماس وسیع پیمانے پر فلسطین کی آزادی کے پروگرام کی تیاری کر رہی ہے۔
حماس نے اپنا منشور 18 اگست 1988ء جاری کیا۔ حماس کے منشور اور پروگرام کو 36 آرٹیکل اور اس کی ذیلی شقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
حماس کے قیام کے ساتھ ہی صہیونی دشمن نے جماعت کو دیوار سے لگانے اور اسے ناکام بنانے کے لیے اپریل 1988ء کو جماعت کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈائون شروع کیا۔ اس کریک ڈائون میں حماس کے مرکزی رہ نمائوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو حراست میں لیا گیا۔ حماس کے خلاف دوسرا کریک ڈائون 1989ء میں شروع کیا گیا اور اس میں حماس کی مزید قیادت اور کارکنوں کی گرفتاریاں کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔
اسرائیلی ریاست نے دعویٰ کیا کہ اس نے کریک ڈائون کے ذریعے حماس کو دبا دیا ہے مگر اس کے کچھ ہی عرصے بعد صہیونی ریاست کو اس وقت کاری ضرب لگی جب غزہ سے تعلق رکھنے والے حماس رہ نما موسیٰ ابو مرزوق نے عمان میں حماس کے سیاسی دفتر کے قیام کا اعلان کیا۔
حماس کے قیام کے بعد” مجاھدین حماس” کے نام سے ایک عسکری ونگ قائم کیا جس کی قیادت صلاح شحادہ کو سونپی گئی۔ اس تنظیم نے’یونٹ 101′ قائم کی جس نے اسرائیلی فوجیوں کے اغواء اور قتل کی کئی کارروائیاں کیں۔ ایلان سعدون اور آوی سسپوٹرز کو جنگی قیدی بنایا گیا۔ 1991ءمیں حماس کے عسکری ونگ کو القسام بریگیڈ کا نام دیا گیا۔
القسام بریگیڈ نے جنوری 1992ء کو اپنی آپریشنل کارروائیوں کا آغاز کیا۔ القسام کے عسکری سفر کا آغاز’یہودی ربی کفار داروم’ کے قتل سے ہوا۔ اس کے علاوہ ڈورون شوشان اور کئی دوسرے صہیونیوں کو ہلاک اور زخمی کیا گیا۔
17 جنوری 1992ء اور اسلامی جہاد پر صہیونی ریاست کی طرف سے ایک بڑا حملہ کیاگیا جس میں دونوں جماعتوں کے 415 رہ نمائوں کو فلسطین سے نکال کر جنوبی لبنان میں بے دخل کردیا گیا۔ اس بے دخلی کو مرج الزھور کی بےدخلی کا نام دیا گیا اور یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔
سنہ 1990ء میں میڈریڈ امن کانفرنس اور 13 ستمبر 1993ء کو طے پائے اوسلو معاہدے ، اپریل 1994ء کو نیشنل سیکیورٹی اور فلسطینی سرکاری سیکیورٹی ادارے کے قیام کو مسترد کردیا تھا۔
قابض صہیونی فوج نےجنوری 1996ءکو حماس کے بم ساز یحییٰ عیاش کو اسرائیلی فوج نےٹارگٹ کلنگ کی کارروائی میں شہید کیا۔
مارچ 1996ء کو حماس نے صہیونی ریاست کے قلب میں فدائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ تمام کارروائیاں یحییٰ عیاش کی شہادت کے بدلے میں کی گئیں جن میں دسیوں صہیونی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ قابض فوج نےحماس کے خلاف وحشیانہ کریک ڈائون شروع کیا اور حماس کے حامیوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو حراست میں لے لیا گیا۔
25 ستمبر سنہ 1997ء کو اسرائیلی خفیہ ادارے’موساد’ نے اردن میں مقیم حماس رہ نما خالد مشعل کو زہر دے کر شہید کرنے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم خالد مشعل کو بچا لیا گیا مگر اردن کی طرف سے اسرائیلی ریاست پر دبائو ڈالا گیا جس نے حماس کے بانی الشیخ احمد یاسین کو جیل سے رہا کردیا۔ اس ڈیل میں اردن نے موساد کے دو ایجنٹوں کو رہا کیا۔
سنہ 1999ء میں اردن نے اپنے ملک میں حماس کےسیاسی شعبے کے دفاتر بند کردیے جس کے بعد حماس کی قیادت نے شام میں اپنے سیاسی دفتر کی درخواست کی جسے قبول کرلیا گیا۔ سنہ 2011ء شام میں برپا ہونے والی انقلابی تحریک تک حماس کے سیاسی دفاتر قائم رہے۔ اس کے بعد حماس نے اپنے دفاتردوحہ منتقل کردیے تھے۔
سنہ 2000ء میں فلسطین میں دوسری تحریک انتفاضہ شروع ہوئی۔ اس تحریک کو تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کا نام دیا گیا۔
سنہ 2005ء میں فلسطین میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں حماس نے شرکت سے انکار کیا۔ ان انتخابات میں محمود عباس فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔
پچیس جنوری 2006ء کو فلسطین میں پارلیمانی انتخابات ہوئے اور ان میں حماس نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ مارچ 2006ء کو فلسطین میں بلدیاتی انتخابات میں بھی حماس کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔
سنہ 2011ء کو فلسطینی مزاحمت کاروں بالخصوص القسام بریگیڈ اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ کیا جس میں ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے 1050 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔
مارچ 2017ء کو حماس نے سیاسی دستاویز کا اعلان کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر فلسطین میں صدارتی انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے تو حماس اس میں حصہ لےگی۔