زندگی میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قانون کی تعلیم اور پریکٹس کے دوران مجھے 21 ویں صدی کے کچھ حراستی کیمپوں کے ایسے تصور سے گزرنا ہوگا جن کی مثال 1930 اور 1945 کے درمیان جرمنی کے قائم کردہ حراستی کیمپوں اور نازی کیمپوں سے جا ملے گی۔ میں نے تو قانون کی تعلیم پائی تھی۔ قانون کی پریکٹس کا سوچا تھا۔ مگر غزہ سے 34 کلومیٹر کے فاصلے پر اور جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کی تقریباً سیدھ میں اسرائیل کے فوجی اڈے واقع ‘سدے تیمان’ نے ایک خوفناک تجربے سے دوچار کر دیا۔
اگرچہ ساڑھے آٹھ ماہ کی غزہ جنگ کے مشاہدے اور تجربے سے بہت کچھ نیا گزرا تھا مگر یہ بالکل ہی اور جگہ۔ ویسے تو غزہ خود بھی انسانوں کے لیے اسرائیل کی طرف سے ایک کھلی جیل بنا دی گئی بستی ہے کہ اس کو اس طرح ناکہ بندیوں، پہروں اور فوجیوں کی جوتیوں سے گھیرا گیا ہے۔ اس کے گرد ایک دیوار بنا دی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ تصورہی ہے کہ جس طرح اسرائیل اپنی روایتی دیوار گریہ پر روتے ہیں۔ یہودیوں کے علاوہ انسانوں کو بھی دیوار اور گریہ کے درمیان چن کر رکھ دیا جائے۔
اس لیے دیواروں، حراست، تشدد اور جبر کے سارے سلسلے ہولو کاسٹ کے تصوراتی دائروں سے جا کر ملا دیے ہیں۔ نہیں معلوم یہ شعوری کامیابی ہے یا لاشعور میں آباد خوف، دہشت اور انتقام کے چنگل کا چہرہ ہے۔
سدے تمان کہنے کو تو ایک اسرائیلی فوجی کیمپ ہے۔ مگر درحقیقت اب اس کی شکل اسرائیلی فوجیوں کے لیے غیر انسانی ماحول میں رہتے ہوئے ظلم اور جبر و تشدد کے میدان میں ہنر مندی اور مہارت کی صلاحیت کو درجہ کمال تک پہنچانا ہے۔ تاکہ نازی جو یہودیوں کو کمتر سمجھتے تھ اسرائیلیوں کو ان نازیوں سے برتر اور اونچے درجے پر فائز کر کے دکھایا جائے ‘ہم کسی سے کم نہیں’ ۔
اس برتری کے جذبے کی بےشمار تصاویر غزہ و مغربی کنارے میں آئے روز اکا دکا واقعات کی صورت میں پہلے سے موجود تھیں مگر جس جگہ کو اس معاملے میں نکتہ عروج پر دیکھا ہے وہ میرے گمان کا پرانا فوجی اور نیا حراستی کیمپ ہے۔ حراستی کیمپ کی شناخت سات اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ نے دی ہے۔
رازداری کا اہتمام جس کی شروعات اسرائیل میں کھڑی کی گئی ‘سکیورٹٰی وال’ سے کی گئی تھی یہاں اس کا اہتمام حد سے زیادہ ہے۔ اسی لیے میں بطور وکیل اور غیرفوجی کے پہلا شخص ہوں جو اس جگہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے اجازت کا مستحق قرار پایا۔
یہ پرانا فوجی اڈہ اب غزہ سے حراست میں لیے گئے فلسطینیوں کے لیے جائے تشدد و تعذیب ہے۔ اذیت و صعوبت کا مقام ہے۔
جہاں چار بیرکوں میں 100 سے 150 کے درمیان اسیران غزہ کو رکھا گیا ہے۔ یہ مراد نہیں کہ محض رکھا گیا ہے بلکہ نازی کیمپوں اور گوانتاناموبے کے تجربے اور تاریخ کو یکجا اسی حراستی کیمپ میں کرنے کی کوشش صاف نظر آتی ہے۔
تشدد و تادیب کے سب پرانے حربے اور ہتھکنڈے اور ان کے اکٹھا کر کے استعمال کرنے کا اہتمام اس حراستی کیمپ کی اپنی شناخت بن رہا ہے۔
اس میں قیدی اس طرح رکھے ہیں کہ انھیں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جن کے ہاتھ ہمہ وقت ہتھکڑیوں میں اور ٹانگیں بیڑیوں میں جکڑی رکھی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ سونے کے موقع پر بھی ان کی بیڑیاں کھولی نہیں جاتیں۔ انہیں زبان کھول کر بتانے، کہنے اور سنانے کا حق کس نے دیا ہوگا۔ یہ اتنا معلوم ہو سکا کہ انہیں مرضی سے ہلنے کی بھی اجازت نہیں اور مرضی سے کھڑے ہونے کی بھی سہولت نہیں۔
زمین جو ان کے آباؤاجداد سے 1948 میں اور 196سات میں چھین لی گئی تھی۔ اس میں سے ایک قبر سے تھوڑے زیادہ ٹکڑے پر سونے کی اجازت ہے۔ شاید قبر میں سونے کے تجربے سے گزارنے کی زندگی میں ہی گزرجانے کے موقع کے لیے۔
یقیناً سونے کے لیے کمبل فراہم نہیں کیا جاتا کہ غزہ کے اسیران اسرائیل کے قیدی ہیں مہمان نہیں۔ ان کے جسموں پر ہاتھ سیدھا کرنے کا حق اسرائیلی فوجیوں کو ہے۔ اسی اسرائیلی فوج جسے اسرائیل نے 1948 سے پہلے والی جنگجو یہودی تنظیموں کی باقیات کے طور پر نئی شناخت اور نام لے کر منظم کیا ہے۔ مگر اس کیمپ اور اس طرح کی دوسری جگہوں پر یہ ‘آئی ڈی ایف’ کے بجائے مکمل ‘آئی او ایف’ بن چکی نظر آتے ہیں۔ ‘اسرائیل آکوپیشنل فورس’ اسرائیلی قابض فوج کہ یہاں اس کا کردار خالصتاً قابض فوج کا ہے۔ یہ فوج زخم لگاتی ہے اور ان قیدیوں کو خوب لگاتی ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کو جگہ جگہ ڈاکٹروں کی سہولت کیسے دی جائے۔ اس سوال کا توڑ یہ نکال لیا گیا ہے کہ ان قیدیوں کے کئی کئی ہفتوں اور مہینوں سے شروع زخموں کی مرہم پٹی کے لیے پیرامیڈکس کے نام پر ان لوگوں کو لایا جاتا ہے جنہوں نے غیرانسانی جیل کے اس ماحول میں ان قیدیوں کی سرجری کا ہنر سیکھنا ہے۔ اس کے باوجود کہ انہوں نے طب کا الف ب تک نہیں پڑھا ہے۔ ہاں انہیں پرانے اور بگڑے ہوئے زخموں سے اٹھنے والی بدبو کا ساتھ لیے ماحول میں رہنے کا حوصلہ ضرور دکھانا ہے اور رازداری رکھنا ہے۔
اسرائیلی فوج کے تشدد اور جبر کے بدترین استعمال کی وجوہات میں جہاں ان فلسطینیوں سے اپنی پسند کے اعترافات کرنا ہیں۔ وہیں انہیں فلسطینی قیدی ہونے کی بنیاد پر اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی استعمال میں لانا ہے۔ ایک ایسی قابض فوج کے جوانوں کے لیے تجربے کے ایسے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنا ہے جن کے عزائم اپنے گرد و پیش کے لیے واضح، کھلے اور وسیع تر ہی نہیں چہار اطراف ہیں۔
قانون کے شناوری ہونے کے ناطے یہ بھی دلچسپ حقیقت نظر آئی ہے کہ یہاں چند ماہ میں ان قیدیوں کو عملاً دو ماہ سے زیادہ زیر تفتیش و تشدد رہنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ پہلی بار گرفتاری کے فوری بعد چالیس دن کے قریب ہر طرح کے تشدد و تعذیب سے گزار کر کچھ منوانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بعدازاں تقریباً ایک ماہ تک نئے زخموں کے لیے حوصلہ پالینے کے بعد قیدیوں کو تفتیشی بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا جاتا ہے۔
اس دوران ان کے امور میں ‘عدالتی مہر’ بھی لگوانے کا اہتمام شروع کرایا جاتا ہے۔ ایمرجینسی کے نفاذ کا یہ اسرائیلی عدالتیں و اسرائیلی فوج دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یوں پھر نظر بندی اور نظر بندی میں توسیع کے مراحل آسانی سے مکمل کر لیے جاتے ہیں۔
غیر قانونی اور غیرمنصفانہ ٹرائل اور قیدیوں سے ہر طرح کی بدسلوکی، بےتوقیری، انسانیت سے گری ہوئی ہر حرکت، اسرائیل میں رواں رکھنے کا اصول اپنایا گیا ہے۔ اس لیے کسی قیدی کی جان اور عزت پامال ہوتی ہے یا کی جاتی ہے تو so what کے علاوہ کوئی جواب نہیں۔
حالیہ چند دنوں میں ان غزہ والے قیدیوں میں سے کم از کم چھ قیدیوں کی تشدد سے ہہلاکت ہوئی ہے۔ صدمے سے ذہنی توازنوں کو بگاڑ دینے کی کوشش جاری ہے۔ کوئی اعداد و شمار کا شعبہ تھوڑی دیکھتا ہے۔ ویسے بھی تفتیشی عقوبت خانہ بن چکے سدے تیمان کے ذمہ داروں کے لیے اطمینان کی بات ہے کہ 3سات431 ہلاکتیں جو غزہ میں ہو چکی ہیں ان کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہلاکتیں اس کے حصے میں ابھی تک آئی ہیں۔ ان کا ہدف اور ہدف کاری ابھی جاری ہے کہ سدے تیمان جاری ہے۔
سدے تیمان کی دیواروں کے اندر کون کون فلسطینی قید ہے۔ کس کس قسم کے نازی تجربے سے گزر رہا ہے یا نازی حراستی کیمپوں سے آگے نکل چکے ان اسرائیلی حراستی کیمپوں میں انہیں کب تک رہنا ہے۔ کب تک مرنا ہے کوئی نہیں جانتا اور خالد المہجینہ بھی نہیں جانتا کہ وکالت و عدالت کے میدان میں قائم اس تشدد و عداوت کی پریکٹس کے مظاہر دیکھنے کا یہ ماحول کب تک جاری رہے گا۔ بطور وکیل بس یہی سوچتے سوچتے سدے تیمان سے ابھرتی ہوئی قیدیں کی چیخوں میں گم سم رہ جاتا ہوں کہ انسانی چیخوں کے عالمی، امریکی، مغربی ادارے کہاں قید کر دیے گئے ہیں۔ کہاں مر گئے۔ کیا تیمان حراستی کیمپ کا تشدد سب کی جان لے گیا ۔ سب کو نگل گیا؟