سر برد، ملبے کے نیچے دب کر کچلے ہوئے، ٹکڑے ٹکڑے اور سنائپر کی گولیوں سے چھلنی ننھے جسم… 10 ماہ سے جاری نسل کشی جنگ کے دوران اسرائیلی فوج غزہ کے بچوں کو بھی دانستہ نشانہ بنا رہی ہے۔ جس سے وہ اسرائیلی عسکری کاروائیوں کے جائز اہداف بن گئے ہیں۔
غزہ میں بہت سے بچے جو بمباری سے بچ گئے ہیں، وہ صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ جلنے، اعضاء کے کٹ جانے، اور مسخ ہونے جیسے مسائل میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ جب کہ اکثر اپنے والدین اور خاندانوں کو کھونے کے نتیجے میں یتیم ہو گئے۔
سفاکانہ قتل عام
غزہ سے واپس آنے والے ایک امریکی یہودی ڈاکٹر مارک پرلمٹر نے اپنے تاثرات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج جان بوجھ کر بچوں کو ٹارگٹ کر کے گولیاں مارتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی بچوں کو ایسے ٹکڑے ٹکڑے اور زخمی نہیں دیکھا جیسے انھوں نے غزہ میں دیکھا۔
فيديو | قال الطبيب اليهودي الأمريكي #مارك_بيرلموتر العائد من قطاع #غزة، أنه "لم يشاهد في حياته أطفالا مقطعين ومصابين كما رأى في القطاع الذي يتعرض لحرب إسرائيلية”.#طوفان_الأقصى #قطاع_غزة #غزة_الآن pic.twitter.com/cxlhHGgU52
وكالة قدس برس (@QudsPress) July 24 2024
پرلمٹر نے امریکی سی بی ایس نیٹ ورک کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے دانستہ بچوں کو نشانہ بنایا، "ہمارے پاس ایسے شواہد ہیں جو فلسطین میں بچوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنانے اور ان کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کے واقعات کو ثابت کرتے ہیں۔”
امریکی ڈاکٹر نے مزید کہا کہ انہوں نے خود غزہ کی پٹی میں بچوں کو "سنائپر گولیوں” کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا۔ وہ اسرائیلی فوج کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں کہ وہ لڑائیوں میں بچوں کو نشانہ نہیں بناتی۔
گذشتہ مارچ میں، یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس آبزرویٹری نے غزہ میں شفا میڈیکل کمپلیکس اور اس کے ارد گرد اسرائیلی فوج کی طرف سے 13 فلسطینی بچوں کو براہ راست گولیاں مار کر قتل کرنے کے تصدیق کی۔
آبزرویٹری نے بتایا کہ اس کی فیلڈ ٹیم کو ایسے بیانات اور شواہد موصول ہوئے ہیں جو 4 سے 16 سال کی عمر کے فلسطینی بچوں کے خلاف پھانسی اور قتل کے حوالے سے ہیں۔بعض بچوں اور ان کے اہل خانہ کو ان کے گھروں کے اندر محصور کر کے مارا گیا، اور کچھ نقل مکانی کرتے وقت نشانہ بنائے گئے۔
الشفاء ہسپتال کے قرب و جوار کے رہائشی فلسطینی اسلام علی صلوحہ نے ہیومن رائٹس آبزرویٹری کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے ان کے نو اور چھ سال کے بیٹوں کو "جان بوجھ کر گولیوں کا نشانہ بنانے کے بعد ان کے اہل خانہ کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا ہے۔”
وہ اپنے رہائشی علاقے کو خالی کر رہے تھے کہ اچانک انہیں شدید گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بچوں کا اعضاء کھونا
زیادہ تر بمباری کے واقعات میں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لیکن جو بچ جاتے ہیں وہ زیادہ خوش قسمت نہیں ہوتے۔ ان میں سے اکثر مستقل معذوری، اعضاء جھلس کر مسخ ہونے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مشاهد صعبة لانتشال أطفال شهداء عالقين بين ركام منزلهم الذي دمره الاحتلال على رؤوسهم في رفح جنوب قطاع غزة على بعد عشرات الأمتار من الحدود مع جمهورية مصر العربية.
إلى متى هذا الظلم والتخاذل؟
إلى متى يا عرب ويا مسلمين؟!لقد تخاذلت حكومات وأنظمة لكن لا عذر لقادر pic.twitter.com/Nac5jya4kZ
رضوان الأخرس (@rdooan) May 7 2024
برطانیہ میں مقیم تنظیم "سیو دی چلڈرن "نے ایک سابقہ بیان میں بتایا تھا کہ غزہ میں جنگ کے نتیجے میں روزانہ کم از کم 10 بچے اپنی ٹانگیں کھو دیتے ہیں۔
تنظیم نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں ایک ہزار بچوں نے جنگ کے پہلے تین ماہ کے دوران اپنی ایک یا دونوں ٹانگیں کھو دیں۔ یاد رہے کہ غزہ میں طبی آلات کی کمی کی وجہ سے بچوں کی زیادہ تر سرجری بے ہوشی کے بغیر کی گئی۔
اردن کے پیڈیاٹرک سرجن بلال عزام نے غزہ میں تجربات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک 5 سالہ بچے کا ذکر کیا جس نے ان سے پوچھا کہ "انکل، جب میں بڑا ہوں گا تو کیا میرے ہاتھ میرے ساتھ بڑھیں گے؟” اس کا خیال تھا کہ اعضاء کٹنے کے بعد دوبارہ بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نے متاثر ہو کر پوچھا: یہ بچہ 60 یا 70 سال بغیر ہاتھ کے کیسے جیے گا؟
غزہ میں خان یونس کے یورپی ہسپتال میں دو ہفتے سے بھی کم وقت گزارنے والے فرانسیسی ڈاکٹر "پاسکل آندرے” نے مشاہدات بیان کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیلی سنائپرز بالغوں کے سروں میں گولی مارتے ہیں اور بچوں کی ٹانگوں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ کبھی نہ کھیل سکیں۔”تاہم غزہ میں تمام بچے نہیں کھیلتے۔
"صالح” اسرائیلی بم کا نشانہ بنے تھے، جس کی وجہ سے ان کا پاؤں کٹ گیا۔ اب وہ بیساکھیوں کا استعمال کرتے ہوئے چلتے ہیں اور اپنے خاندان کی مدد کررہے ہیں۔ ان کے چہرے پر اطمینان، اور زندگی سے بھرپور مسکراہٹ ہے۔
بیماریاں
صرف اسرائیلی بم ہی غزہ کے بچوں کے دشمن نہیں ہیں۔ تباہی کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریوں اور انفیکشن نے ان کے بڑھتے ہوئے مصائب میں حصہ ڈالا ہے۔ بہت سے بچے بیماریوں سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
حافيًا بقدم واحدة.. طفل من #غزة يجمع الأوراق لإعالة أسرته رغم إصابته بقصـف صهيوني أدى إلى بتـر قدمه
اللهم عجل بالفرج pic.twitter.com/VnfqyZ9OIS
Mohammed k (@Kmaa21) July 29 2024
عام طور پر کمزور قوت مدافعت اور دیکھ بھال کی زیادہ ضرورت کے باعث بچنے دوسروں کے مقابلے بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ جبکہ بہت سے بچے اپنے بڑوں کو کھو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ناقص صفائی اور فضلہ جمع ہونے سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔
حال ہی میں فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی گلیوں میں پھیلنے والے گندے پانی میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ تباہ ہونے والی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے اتھارٹی اس بحران سے نمٹنے میں ناکام ہے۔
پولیو ایک انتہائی متعدی وائرل بیماری ہے جو اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتی ہے اور گھنٹوں میں مکمل فالج کا سبب بن سکتی ہے، اور ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیلتی ہے۔
The children of Gaza are facing new dangers every day.
Amid the hostilities UNICEF and partners are working to support the delivery of life-saving interventions including polio vaccines.
But an urgent ceasefire is crucial for children and their health. pic.twitter.com/JaNwl4dJGu
UNICEF (@UNICEF) July 26 2024
اسی تناظر میں، اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے تصدیق کی کہ غزہ کی پٹی میں بچوں کو متعدد بیماریوں کا سامنا ہے۔
اس سے قبل ، اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے حقوق اطفال نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ غزہ میں جنگ نے بے مثال سفاکیت کے ساتھ بچوں کی جانیں لی ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں کے کمشنر جنرل نے اعلان کیا کہ وہاں جنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد دنیا بھر میں 4 سال سے جاری تنازعات کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔