یکشنبه 17/نوامبر/2024

اسرائیل سنہ 2020ء میں القدس میں کیا کرنے جا رہا ہے؟

منگل 17-دسمبر-2019

کچھ عرصہ پیشتر فلسطین اور بیرون ملک کی مختلف تنظیمیں قابض صہیونی ریاست کے القدس شہر، بیت المقدس کے باشندوں اور مسجد اقصیٰ کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم میں اضافے کی بار بار تنبیہ کررہی تھی۔ یہ تنبیہ اس وقت کی جا رہی تھی جب پورے بیت المقدس کو یہودیانے، اس کے تاریخی معالم وآثار کو مٹانے اور القدس کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل دن رات سازشیں کرہا تھا۔

امریکی انتظامیہ کی مالی، مادی اور معنوی امداد کے ساتھ صہیونی ریاست کی طرف سے اراضی ہتھیانے، مسجد اقصٰی کی بنیادوں تلے کھدائیاں کرنے اور دیوار فاصل کے ذریعے فلسطینی بستیوں اور شہریوں کو تقسیم کرنے کی مجرمانہ پالیسی پرعمل پیرا ہے۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی ریاست ‘2020’ میں ایک نئے القدس کی تعمیر کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔ اس منصوبے میں مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا اشتعال انگیز منصوبہ بھی شامل ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سنہ 2019ء ایسے حالات اور وقت میں الوداع ہو رہا ہے جب کہ مسجد اقصیٰ تاریخ کے بدترین اور مشکل ترین دور سے گذر رہی ہے۔ سنہ 2020ء القدس اور مسجد اقصیٰ جلتی پرتیل چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔

القدس کے حوالے تین پہلو

القدس اور مسجد اقصیٰ کے امور کے ماہر خالد زبارقہ کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے حوالے سے تین مختلف مراحل میں صہیونی ریاست ریاست کے حوالے سے کام کررہی ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد القدس کو یہودیانے کے منصوبوں کوآگے بڑھانا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت القدس کے اسلامی اور عرب تشخص کو تباہ کرنے کے لیے انتہا پسندانہ صہیونی ایجنڈے پر کام کررہی ہے۔ یہ خالص یہودی اور صہیونی ایجنڈا ہے اور صہیونی ریاستی ادارے بلا خوف تردید ان منصوبوں کے اعلانات کررہےہیں۔ اس منصوبے کا آغاز 2000ء میں ہوا اور اس پر2020ء میں عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت القدس کوعرب اور اسلامی تاریخی شہر کے بجائے خالص یہود صہیونی شہر میں تبدیل کرنا ہے۔

اس منصوبے کو صہیونی ریاست کے القدس کے حوالے سے طے شدہ پالیسی اور حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

دوسرا پہلو القدس کےفلسطینی باشندوں کے حوالے سے ہے۔ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت القدس سے فلسطینیوں کو بےدخل کررہا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور انہیں جبرا ملک سے نکالا جا رہا ہے۔

خالد زبارقہ کا کہنا ہے کہ القدس کے فلسطینی باشندے صہیونی ریاست کے منظم ظلم کا شکار ہیں۔ انہیں منظم نسل کشی کا سامنا ہے۔ ان کے گھر مسمار کیے جا رہےہیں۔ انہیں القدس میں مکانات کی تعمیر کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ فلسطینیوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ انہیں کاروباری سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔

اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں فلسطینی بچوں کو داخل ہونے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ فلسطینیوں میں بیداری کی ہرکوشش اور شعور وآگہی کی ہرکاوش کو روکا جا رہا ہے۔

تیسرا پہلوالقدس کےحوالے سے عالمی برادری، مُسلم دُنیا اور عرب ممالک کی مجرمانہ غفلت اور خاموشی ہے۔ القدس کے حوالے سے عالم اسلام اور عرب ممالک اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مجرمانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کررہےہیں۔

القدس اور 2020ء کا خطرناک مرحلہ

قانون دان خالد زبارقہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2020ء میں القدس شہر اور اس کی آبادی کے لیے اس سے بڑا اور کیا خطرہ ہوسکتا ہے کہ القدس کا تشخص پامال کرنے اور القدس میں فلسطینی اور عرب وجود کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

اسرائیلی ریاست ایک منصوبے کے تحت القدس میں فلسطینی باشندوں کی جگہ یہودیوں کو بسا رہی ہے۔ عرب کالونیوں کو یہودی کالونیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور القدس میں مکمل آبادیاتی نقشہ اور آبادی کا توازن تبدیل کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل کے ‘القدس پروگرام برائے 2020ء’ کو صہیونی ایک خواب کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔القدس کو پوری دنیا کےیہودیوں کا دارالحکومت بنایا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ القدس اور اس کے باشندوں کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہے۔ اس منصوبے کے تحت القدس کے عرب باشندوں کی تعداد کم سے کم کرکے 10 اور 12 فی صد تک لانا ہے۔

اس طرح صہیونی ریاست گریٹر اسرائیل کے مذموم ایجنڈے پرکام کررہی ہے۔ عظیم تر اسرائیل کے منصوبے میں القدس کے ساتھ غرب اردن کا 10 فی صد علاقہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح غرب اردن کے 600 مربع کلو میٹر کے علاقے کو اسرائیل میں ضم کیا جا رہا ہے۔ القدس کی تاریخی سرحدوں کو مٹایا جا رہا ہے۔

عظیم تر یروشلم کے مذموم منصوبے کے تحت القدس میں ایک ملین یہودیوں کو آباد کرنا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی