سعودی عرب کے قابض اور غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ در پردہ تعلقات اور مظلوم فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی جرائم پر خاموشی ایک معمول سی بات ہے مگر ایک سعودی شہزادے نے دو قدم مزید آگے بڑھ کرفلسطینیوں کے قاتل جنگی مجرم صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے ساتھ اس قدر ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا ہے جس نے فلسطینی قوم ہی نہیں بلکہ سعودی عرب میں بھی عوامی اور سماجی حلقوں میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق سعودی شہزادہ محمد سعود گذشتہ کئی ماہ سے خبروں کا موضوع ہے۔ مسٹر سعود اس وقت سے خبروں میں چھائے ہوئے ہیں جب انہوں نے اسرائیلی ریاست کے ویزے پر مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کیا۔ سعود مسجد اقصیٰ میں داخل ہو اتو وہاں پرموجود نمازیوں نے اسے نکال باہر کیا۔ اس دورے کے دوران اس نےاسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور کئی دوسرے اسرائیلی سیاسی گماشتوں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سعود نے اسرائیلی لیڈروں کو یقین دلایا کہ ان کا ملک اسرائیل کے خلاف ایران خطرات کو سمجھتا ہے۔ نیز یہ کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں قیام امن میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ تاہم موصوف نے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی مظالم پر کوئی ایک بات کہنے کی بھی ہمت نہیں کی۔ اس کے بعد سعود مسلسل اسرائیلی ریاست کی حمایت اور نیتن یاھو کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔آئے روز سوشل میڈیا پر اسرائیل اور نیتن یاھو کی حمایت میں بیانات شائع کررہا ہے۔
محمد سعود کی ایک تازہ پوسٹ جس میں اس نے اسرائیلی وزیراعظم کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے ہیں سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
محمد سعود نے لکھا ہے کہ’میں آپ سے بے حد پیارکرتا ہوں اور میں تمہارے لیے بہت اچھے اور بہتر کی خواہپش کرتا ہوں۔ مجھے آپ کی کامیابی کا پورا یقین ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں’۔
اس کی اس ٹویٹ کے جواب میں نیتن یاھو نے لکھا کہ ‘مجھے افسوس ہےکہ آپ میرے ووٹر نہیں۔ کاش آپ جیسے لوگ میرے ووٹر ہوتے۔ اگر آپ لیکوڈ پارٹی میں ہوتے تو بہت ہی اچھا ہوتا’۔
غم وغصے کی لہر
محمد سعود کی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی تعریف اور اسرائیل کی حمایت پرمبی بیان کے رد عمل میں عرب، مسلمانوں، فلسطینیوں اور سعودی شہریوں میں سخت غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ ایک سماجی کارکن محمد بن جنید نے لکھا کہ ‘آپ کے ٹویٹر اکائونٹ سے جس طرح کی بدبودار ٹویٹس جاری ہو رہی ہیں اس کے باوجود میں اللہ سے آپ اس عارضے سے نجات دلائے’۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ‘اس میں ذرا برابر شبہ نہیں کہ آپ عرب اور مسلم امہ کے خائن ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے خائن ہیں’۔
ایک اور شہری نے محمد سعود کی ٹویٹ پر لکھا کہ اس بد بخت اور غبی شخص کی ٹویٹس کو یہودی اپنی انتخابی کے لیے استعمال کررہے ہیں اور یہ سمجھتا کہ یہودیوں کے ساتھ بھائی چارے اور دوستی کا اظہار کرکے وہ کوئی بڑا کام کررہا ہے، حالانکہ وہ اپنے آپ اور پوری مسلم امہ کو دھوکہ دے رہا ہے’۔
ایک سعودی شہری نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ‘ نیتن یاھو کی تعریفیں کرنے والا سعودی شہری نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ سعودی ہے تو وہ سعودی قوم کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ اس کی سوچ سعودی عوام کی سوچ کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ شخص سعودی ریاست اور قانون کا باغی اور مستوجب سزا ہے۔ قضیہ فلسطین ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔الاقصیٰ صرف اور صرف مسلمانوں کی ہے اور اس پر صہیونیوں اور اسرائیلیوں کا کوئی حق نہیں’۔
سابقہ جرم
جولائی 2019ء کو محمد سعود جب بیت المقدس کے متنازع دورے پر گیا تو اسرائیلی پولیس کی طرف سے اسے فول پروف سیکیورٹی فراہم کی گئی۔ مگر جب وہ القدس میں داخل ہونے کے بعد مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا تو فلسطینیوں کی طرف سے اس پر سخت غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور اسے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنے پرسخت لعن طعن اور ملامت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ایک ایسا شخص جو عربی لباس زیب تن کیے اسرائیلی ریاست کی تعریف کرنے لگا تو مسجد اقصیٰ کے نمازیوں نے اس کا تعاقب کرتے ہوئے اسے وہاں سے دھکے دے کر نکال دیا۔ بچوں نے اس پر جوتے اچھالے اور پلاسٹک کی کرسیوں سے نشانہ بنایا۔ وہ اپنی جان اور عزت بچا کر وہاں سے بھاگ نکلا تھا۔
سوشل میڈیا پریہ خبر بھی آئی کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اسرائیل کےویزے پر صہیونی ریاست کا سفر کیا تو اس کی شہریت منسوخ کردی گئی ہے مگر یہ خبر بے بنیاد نکلی۔ وہ اس وقت بھی سعودی عرب میں ہے۔ حال ہی میں جب نیتن یاھو لیکوڈ پارٹی کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو محمد سعود نے اس کے دفاع میں کئی ٹویٹس کیں اور اس کی کامیابی کے لیے دعائیں کی۔
سعودی شہریوں کا کہنا ہے کہ محمد سعود الریاض میں زیرتعلیم ہے اور اسرائیل کی حمایت کرکے سعودی عرب کو بدنام کرنے کی مہم پر چل رہاہے۔ اسرائیل اس کے بیانات اور متنازع دورے کو اپنی حمایت کے پروپیگنڈ کے طور پراستعمال کررہا ہے۔