اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف تجارتی جنگ تیز کردی ہے اور فلسطین کی زرعی اجناس ومصنوعات کی اردن کے راستے برآمد پر پابندی عاید کردی ہے۔ فلسطینی شہریوں اور قیادت نے قابض اسرائیل کے اس اقدام کو فلسطینی معیشت پر ایک نئی جارحیت قرار دیا ہے۔
اسرائیل نے عشروں سے جاری تنازع کے دوران میں پہلی مرتبہ اکتوبر سے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اب تجارتی محاذ کھول لیا ہے اور اس میں گذشتہ ہفتے سے مزید شدت آئی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے وزیر زراعت ریاض العطاری نے ہفتے کے روز ریڈیو صدائے فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’گذشتہ روز (جمعہ کو) اسرائیلی کراسنگز کے ڈائریکٹر نے تمام برآمدکنندگان اور متعلقہ فریقوں کو بتایا ہے کہ فلسطین کی تمام زرعی مصنوعات کی اردن کی سرحدی گذرگاہ کے راستے عالمی منڈی کو اتوار سے بھیجنے پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔‘‘
اسرائیلی اور اردنی حکام نے فوری طور پر اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
گذشتہ ہفتے اسرائیل کے وزیردفاع نفتالی بینیٹ نے یہ دھمکی دی تھی کہ وہ فلسطینی اتھارٹی سے آنے والی تمام زرعی درآمدات پر پابندی لگا دیں گے۔اس کے ردعمل میں فلسطینی اتھارٹی نے بھی اسرائیل کی زرعی مصنوعات ، فروٹ جوس اور بوتل کے پانی کی درآمد پر پابندی عاید کرنے کا اعلان کیا تھا۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان1990ء کے عشرے میں اوسلو امن معاہدے پر دست خط کے بعد سے کشیدہ حالات کے باوجود تجارتی تعلقات برقرار رہے ہیں اور 2014ء میں امن مذاکرات کی معطلی کے باوجود ان کے درمیان زرعی اجناس اور مصنوعات کی تجارت جاری رہی ہے۔
اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع مشرق اوسط امن منصوبے کے اعلان کے بعد سے دونوں فریقوں میں ایک مرتبہ پھر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے اور مقبوضہ بیت المقدس ، دریائے اردن کے مغربی کنارے میں واقع مختلف شہروں اور غزہ کی پٹی میں تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔