امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے نام نہاد امن منصوبے ‘سنچری ڈیل’ کے اعلان کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے زبانی کلامی تو کافی رد عمل سامنے آیا۔ مذمت، ناپسندیدگی، مظاہرے اور بہت سے دعوے اور دھمکیاں بھی دی گئیں مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی ٹرمپ کی صدی کی ڈیل کے خلاف ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھا سکی۔ یوں فلسطینی اتھارٹی کی بیان بازی محض دھمکیوں کی حد تک محدود ہو کررہ گئی اور فلسطینی عوام اس انتظار میں ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کب اس حوالے سے کوئی عملی قدم اٹھائے گی اور اس کی باتیں کب عمل کا روپ دھاریں گی؟
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا اس بات پراتفاق ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے اب تک یہ ثابت کیا ہے کہ صدی کی ڈیل کا صرف بیانات اور باتوں کی حد تک مقابلہ کیا جائے گا۔ امریکی اعلان کے بعد فلسطینی قوم کو جو چیلنج درپیش ہیں ان کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی صدی کی ڈیل کو ناکام بنانے کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔
مایوسی کی کیفیت
فلسطینی تجزیہ نگار محسن ابو رمضان نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رام اللہ اتھارٹی کے صدی کی ڈیل کے حوالے سے اختیار کردہ عملی اقدامات پر فلسطینی عوام میں سخت مایوسی کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ابو رمضان نے کہا کہ فلسطینی قوم کو اس وقت صہیونیوں اور امریکا کی طرف سے تاریخ کے بدترین چیلنجلز کا سامنا ہے۔ اس کے حل کے لیے کرنے کا سب سے اہم کام فلسطینی قوم کی صفوں میں پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنا اور قومی وحدت کو یقینی بنانا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار نے کہا کہ صہیونی ریاست کے مظالم اور امریکا کے سنچری ڈیل منصوبے کے خلاف فلسطینی قوم کو ہرطرح کی مزاحمت کے لیے مکمل آزادی فراہم کرنا ہوگی۔ اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کی مہمات کو مزید بڑھانا ہوگا جب کہ سفارتی اور قانونی محاذوں پر بھی فلسطینی قوم کے حقوق کی جدو جہد کو تیز کرنا ہوگا۔
ابو رمضان نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ جاری سیکیورٹی معاہدوں اور اوسلو معاہدے کو فورا ختم کرے اور تمام تر مساعی قومی اتحاد اور یکجہتی کے لیے مختص کرے۔
کمزور اتھارٹی
فلسطینی تجزیہ نگار ابراہیم حبیب نے فلسطین کے صدی کی ڈیل کے خلاف اپنائے گئے موقف سے فلسطینی اتھارٹی کی کم زوری کھل کر سامنے آئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی سنچری ڈیل کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکی اور صدی کی ڈیل کو ناکام بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے صدی کی ڈیل کے خلاف کوئی جاندار موقف یا جرات مندانہ اقدام نہیں کیا گیا۔ صرف باتوں اور بیانات میں اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔ عملی میدان میں فلسطین میں صہیونی ریاست کے جبرو تشدد اور امریکی جرائم کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں کی گئی۔