یکشنبه 17/نوامبر/2024

‘سنچری ڈیل’ کا طیارہ قلندیا ہوائی اڈے پر اتر گیا

ہفتہ 22-فروری-2020

امریکی انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع کے نام نہاد حل کے لیے پیش کردہ امن فارمولے فایدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے منصوبوں پر دن رات کام کر رہے ہیں۔

حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس میں قلندیہ کے مقام پر ہوائی اڈے کے لیے مختص فلسطینی اراضی کے 1200 دونم رقبے پر یہودی کالونی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کالونی میں ہزاروں گھروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ تجارتی مراکز اور دیگر منصوبوں پر کام شروع کیا جائے گا۔ یہ سب جانتے ہوئے کہ قلندیہ کا یہ علاقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے میں سیاحتی علاقہ قرار دیا گیا ہے۔

قلندیہ ہوائی اڈے کا منصوبہ سنہ 1920ء کو برطانوی استبداد کے دور میں پیش کیا گیا۔ سنہ 1950ء تک یہ علاقہ اردن کے زیرانتظام رہا جب کہ سنہ 1967ء کی جنگ میں اس پر اسرائیلی ریاست نے قبضہ کرلیا۔ القدس اور رام اللہ کو آپس میں ملانے والی شاہراہ پر مجوزہ ہوائی اڈے کے منصوبے کو اسرائیل نے ‘عطاروت’ ایئرپورٹ کا نام دیا۔

زمانی قربت

 اسرائیلی ریاست کی طرف سے سنہ 1967ء کی جنگ سے قبل ‘الون’ کے نام سے ایک نیا منصوبہ متعارف کرایا۔ اس منصوبے کے بعد غرب اردن اور القدس میں یہودی آباد کاری کا مکروہ عمل آگے بڑھانا تھا۔ یہ منصوبہ دراصل اسرائیل کا فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی پالیسی کا اعلان تھا۔

سنہ 2000ء میں فلسطین میں تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران اسرائیل نے اس ہوائی اڈے کو بند کر دیا۔ تاہم اسے  خالی چھوڑ دیا گیا۔

فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹرخالد معالی نے کہا کہ سنہ 1967ء کی جنگ میں قلندیا کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد اب اس علاقے کو نسل پرستانہ بنیادوں پر الگ تھلگ کر دیا گیا۔ اس علاقے کے گردو پیش میں نام نہاد دیوار فاصل تعمیر کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ قلندیا کا مذکورہ علاقہ انتہائی حساس اور جغرافیائی اہمیت کا  حامل ہے۔ یہ مغربی بیت المقدس کا خارجی راستہ ہے۔ یہاں پر فلسطینیوں کو کسی قسم کی تعمیرات یا مداخلت کی اجازت نہیں۔ ڈاکٹرکمال علاونہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست املاک متروکہ کی آڑ میں قلندیہ کی اراضی پر قبضہ کر رہا ہے۔

سنچری ڈیل کی حوصلہ افزائی

قلندیا ہوائی اڈے کی اراضی پر یہودی آباد کاری کا منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف امریکا کا سنچری ڈیل منصوبہ سامنے آچکا ہے۔ امریکی سنچری ڈیل منصوبہ القدس سے فلسطینی آبادی کو الگ تھلگ کرنا اور شہرمیں فلسطینی تشخص اور وجود کو ختم کرنا ہے۔

ڈاکٹر خالد معالی کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کسی بھی یہودی توسیع پسندی کے منصوبے کو آگے بڑھانے سے قبل اس کے جواز اور راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ قلندیہ کی اراضی کو اسرائیلی نیشنل فنڈ کا حصہ قرار دیا گیا۔ جب کہ ایسا کرنا بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔

مختصر لنک:

کاپی