لبنان میں اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کے مندوب اسامہ حمدان نے کہا ہے کہغاصب صیہونی ریاست فلسطینیوں کے خلاف غزہ کی پٹی میں بھوک کو ایک جنگی حربے کے طورپر استعمال کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہفلسطینی شہریوں کو اسرائیلی جارحیت سے نجات اور ریلیف فراہم کرنے کے لیے فوری اورموثراقدامات کی ضرورت ہے تاکہ بھوک، پیاس، بیماریوں اور قتل عام سے بچایا جا سکے۔
حمدان نے ہفتے کے روزبیروت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میںفلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت ایک کھلی جنگ ہے۔
حمدان نے وضاحت کی کہاسرائیلی قابض ریاست نے غزہ کی پٹی میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کے لیےلائف لائن سمجھی جانے والی تمام گذرگاہوں کو بند کر دیا ہے، جس نے انسانی المیے کومزید گہرا کر دیا ہے۔ بھوک سے موت کے واقعات ایک حقیقت بن چکے ہیں۔ ایک استعارہ نہیں۔اسجرم میں امریکہ برابر کا مجرم ہے
انہوں نے خبردار کیا کہغزہ اور شمالی گورنری کی صورتحال تشویشناک ہو گئی ہے۔ بھوک اور خوراک، پانی اورضروریات زندگی کی کمی کے باعث ہزاروں افراد کی جانیں خطرے میں ہیں۔
لبنان میں حماس کے مندوبنے کہا کہ بین الاقوامی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ہمارے 70 فیصدلوگوں کو قحط کے حقیقی خطرے کا سامنا ہے جب کہ خاص طور پر بچے غذائی قلت اور کمزورقوت مدافعت کا شکار ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہبہت سی بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غزہ کی پٹی میں2.3 ملین آبادی کو روزانہ کم از کم 500 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔
آج، پٹی کی پوری آبادی(2.3 ملین افراد) غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
پانچ سال سے کم عمر کے3 لاکھ 46 ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
پانچ سال سے کم عمر کے50400 بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
160000 حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو غذائی قلت سے بچنے کےلیے اضافی غذائیت کی ضرورت ہے۔
اسامہ حمدان نے اپنی پریسکانفرنس میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی قابض ریاست کے جابرانہ اقدامات کی طرفاشارہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ محاصرےاور کراسنگ کی بندش کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے رہائشیوں تک رقم پہنچنے سے روکاگیا جس کی وجہ سے نقدی کا بحران پیدا ہوا اور لوگوں کی ضرورت کے مطابق اشیائےخوردونوش خریدنے کی صلاحیت متاثر ہوئی۔
امدادی کارکنوں اورامداد کی آمد کو یقینی بنانے کے ذمہ داروں کو نشانہ بنایا گیا۔کمیونٹی شخصیات، میئرز،انجمنیں، ادارے اور ہنگامی کمیٹیاں سب اسرائیلی بمباری کے نشانے پر ہیں۔
حمدان نے اس بات پر بھیزور دیا کہ فاقہ کشی کی پالیسی اسرائیلی قابض ریاست کی طرف سے بے گناہ شہریوں کونشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے جنگ کے سب سے وحشیانہ طریقوں میں سے ایکہے اور اسے بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔
حمدان نے امریکی انتظامیہاور صدر بائیڈن کو فلسطینی عوام کے المناک انسانی حالات اور پوری غزہ کی پٹی میںپھیلنے والی خطرناک قحط کی حالت کے لیے سیاسی اور اخلاقی طور پر براہ راست ذمہ دارٹھہرایا۔
انہوں نے اس بات پر زوردیا کہ امریکی انتظامیہ ایک طرف غزہ کی پٹی میں نسل کشی اور بھوک اور پیاس کی جنگکی حقیقت کے بارے میں جھوٹ بولنے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ذمہ دار ہے اوردوسری طرف ان صہیونی جرائم پر پردہ ڈالنے اور قابض ریاست کے مجرموں کو فلسطینیوںکی نسل کشی کے لیے ہتھیار فراہم کررہی ہے۔