‘ہمارے بارے میں فکرمند نہ ہوں، یہاں سب خیرو عافیت ہے’۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے شمالی بیت المقدس کے قلندیا کیمپ کی ایک اسیر فلسطینی بیٹی میس ابو غوش کے ہیں جو اس نے اپنے والدین کو اطمینان دلانے کے لیے ایک پیغام میں کہے۔
میس ابو غوش نے یہ پیغام اس وقت بھیجا جب اس کے والدین کویہ خبر ملی کہ صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینی اسیرات کے ساتھ اسرائیلی جیلر غیرانسانی برتائو کررہے ہیں اور ان کا مسلسل تعاقب کیا جا رہا ہے۔ بلا شبہ یہ خبر میس کے والدین کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھی اور اس پرپریشان ہونا ناگزیر تھا تاہم بہادر فلسطینی بیٹی نے اپنے والدین کے اطمینان قلب کے لیے انہیں پیغام بھیجا کہ ہم جیل میں ہیں مگر یہاں سب کچھ ٹھیک ہے، آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
جہاں تک اسرائیلی زندانوں میں زمینی حالات اور حقیقت کا تعلق ہے تو وہ رہائی پانے والی خواتین کی زبان ہی سے سنا جاسکتا ہے۔ ایسی کئی اسیرات ہیں جنہوں نے رہائی پانے کے بعد اپنے ساتھ برتے جانے والے وحشیانہ اور غیرانسانی برتائو کی تفصیلات بیان کیں۔ بعض اسیران کے ساتھ برتے جانے والے سلوک کی تفصیلات سن کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
مثبت طاقت
اسیرہ میس ابو غوش کے والد نے بتایا کہ ان کی جب اسرائیل جیل میں اپنی بیٹی سے ملاقات ہوئی تو یہ ملاقات ان کے لیے ایک نئی توانائی اور طاقت کا باعث بنی۔ میں نے بیٹی کو گھر کے حالات اوراس کی ماں اور دیگر اقارب کی پریشانی کے بارے میں بتایا۔ میس ابو غوش نے بتایا کہ جیل میں حالات نارمل ہیں اور اس کے ساتھ کوئی غیرمعمولی برتائو نہیں کیا جا رہا تاہم جیل کے حالات بہ زبان حال یہ بتا رہے تھے کہ زندان میں قید خواتین کے ساتھ کھلے عام غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ تاہم اسیرات اپنے اہل خانہ اور والدین کو پریشانی اور فکر مندی سے بچانے کے لیے انہیں’سب اچھا ہے’ کی خبر دینے کی کوشش کررہی تھیں۔
اسیران میڈیا سینٹر سے بات کرتے ہوئے میس کےوالد نے بتایا کہ اس کی بیٹی کو اسرائیلی عقوبت خانوں میں کئی طرح کی تعذیب وتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ وہ اپنے والدین کو اطمینان دلانے کے لیے ہمیں نہیں بتا رہی تاہم اس کی آنکھوں میں آنسو اور اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے اس کے کرب کو سمجھنا مشکل نہیں۔ اس کا تبسم صرف ہمیں مطمئن کرنے کےلیے تھا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اسیرہ کے والد نے کہا کہ اسیرات اس لیے بھی سچ بات اپنے گھر کے افراد کو نہیں بتاتیں کیونکہ اس کے بعد ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں میں اور بھی اضافہ کردیاجاتا ہے۔ ملاقاتوں پرپابندی عاید کردی جاتی ہے اور جیل کے اندر انہیں طرح طرح کی قدغنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اسیرات کے وکلاء اور انسانی حقوق کے مندوبین کو بھی ملنے کی اجازت نہیں ہوتی
خیال رہے کہ اسرائیلی زندانوں میں اس وقت 44 فلسطینی خواتین پابند سلاسل ہیں۔ ان میں ایک درجن کے قریب خواتین بچوں کی مائیں ہیں جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ انہی میں فلسطینی پارلیمںٹ کی رکن خالدہ جرار شامل ہیں۔ اسی طرح شہید اشرف نعالوہ کی ماں وفاء مھداوی بھی پابند سلاسل ہیں۔ بشریٰ الطویل اور میس ابو غوش صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
ناقابل بیان حالات
سابق اسیرہ سوزان العویوی نے بتایا کہ اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی حالت ناقابل بیان ہے۔ صہیونی جیلر اور دیگر عہدیدار انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے طرح طرح کے بہانے اور حربے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی جیلوں میں قید خواتین کو موسم کی شدت کےاعتبار سے مناسب کپڑے تک نہیں دیئے جاتے۔ سردیوں کے موسم میں گرم کپڑوں کی فراہمی بند کردی جاتی ہے۔ اسیرات کے اہل خانہ کی طرف سے فراہم کردہ کپڑے اور دیگر سامان ضبط کرلیا جاتا ہے۔ اسیرات کو جیلوں میں مناسب خوراک نہیں دی جاتی۔ جیلوں کی حالت انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں مگر فلسطینی اسیرات کو ایسے ہی ناگفتہ بہ ماحول میں رکھا جاتا ہے۔
اسیرات کو مطالعے کےلیے کتابیں تک نہیں دی جاتیں۔ باہر سے کتابیں لانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔