فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نے بتایا ہے کہ سال 2019ء کے دوران اسرائیلی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسی کے نتیجے میں فلسطینیوں کے مکانات مسماری کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق سال 2019ء کے دوران مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کے مکانات مسماری کے واقعات ماضی کے برسوں کی نسبت زیادہ سامنے آئے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘عیر عمیم’ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی رحکومت مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کے خلاف خطرناک نسل پرستانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس پالیسی کے تحت فلسطینیوں کی املاک اور مکانات کو مسمار کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ مشرقی بیت المقدس میں 2019ء کے دوران جتنے مکانات مسمار کیے گئے پچھلے 10 سال میں سالانہ اتنے مکانات مسمار نہیں کیے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس اسرائیلی بلدیہ کی حدود میں فلسطینیوں کے 104 گھروں کو بلڈوز کردیا گیا۔ اس کے علاوہ شہر سے باہر وادی حمص کالونی میں فلسطینیوں کے 54 مکانات مسمار کیے گئے جب کہ 117 غیر رہائشی عمارتیں مسمار کی گئیں۔
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت سنہ 1967ء کے بعد مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہے۔ نام نہاد قوانین کی آڑ میں مشرقی بیت المقدس کے فلسطینیوں کو ان کے گھروں، زمینوں اور جائیدادوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کی تین لاکھ 40 ہزار آبادی کے بنیادی مطالبات کو نظرانداز کرتے ہوئے یہودی آباد کاری کے لیے نیا تعمیراتی ڈھانچہ منظور کیاگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2019ء کے دوران مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کی طرف سے تعمیرات کے لیے دی گئی صرف 7 فی صدر درخواستیں منظور کی گئیں حالانکہ ان علاقوں میں 38 فی صد فلسطینی آباد ہیں۔