فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں بیرون ملک سے آنے والے شہریوں کو کرونا کے خطرے کے پیش نظر رفح گذرگاہ پر قرنطینہ مراکز منتقل کیا۔
بیرون ملک سے آنے اور غزہ کی سرحد پر قرنطینہ مراکز میں ان فلسطینیوں کے 3 ہفتے کیسے گذرے۔ قرنطینہ سے گھروں کو بھیجنے والے والے فلسطینیوں نے اپنے تین ہفتوں کے بارے میں تاثرات کا اظہار کیا ہے۔
گذشتہ روز درجنوں فلسطینی 21 روزہ قرنطینہ دورانیہ پورا کرنے کے بعد گھروں میں پہنچ گئے ہیں۔ انہیں فلسطینی وزارت صحت کی طرف سے قرنطینہ میں علاج،قیام اور طعام کی ہرممکن سہولت مہیا کی گئی تھی۔ ان فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ آغاز میں انہیں 14 دن کے قرنطینہ کے لیے آئسولیشن مراکز منتقل کیا گیا تھا مگر بعد ازاں اس کا دورانیہ بڑھا دیا گیا اور انہیں 14 کے بجائے 21 دن قرنطینہ میں رکھا گیا۔
غزہ کے تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے کل 13 فلسطینی کرونا کا شکار ہوئے جن میں سے چھ صحت یاب ہونے کے بعد گھروں کو لوٹ گئے ہیں جب کہ غزہ میں کرونا سے تا حال کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔
قرنطینہ سے گھر تک
قرنطینہ سے گھرمنتقل کیے جانے والے 38 سالہ عبدالرحمان عثمان جو ایک سپاہی ہیں نے گھر کے لیے روانگی سے قبل اپنا موبائل فون پکڑا اور دیر البلح میں قائم قرنطینہ کے مناظر کی عکس بندی کی گئی۔
عثمان نے بتایا کہ میں ایک پولیس افسر ہوں اور قرنطینہ میں کرونا کے متاثرین کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے بھی یہ بیماری لگی تھی مگر اب میں تندرست ہوگیا ہوں۔ میں کرونا کے مریضوں کی خدمت پرمامور تھا۔ انہیں کھانا اور ادویات پہنچاتا۔ وہاں پرتمام پولیس اہلکار، ڈاکٹر اور نرسیں سب انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشارہیں۔ ان میں مختلف عمر کے افراد شامل ہیں۔ وسطی غزہ کے پولیس ڈائریکٹر ایاد سلمان اور تحفظ عامہ پولیس کے ڈائریکٹر باسم ابو عمرہ خود ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔
انہوں نے کہا کہ عثمان بھی اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ قرنطینہ میں رہنے والے 370 افراد میں شامل تھے۔ اس موقعے پر حکومت کی طرف سے قرنطینہ میں منتقل کیے گئے تمام افراد کےساتھ مساوی سلوک کیا گیا۔
عثمان کی ڈیوٹی صرف سیکیورٹی کا انتظام سنھبالنے تک محدود نہیں تھی بلکہ دیگر 15 پولیس افسران باری باری قرنطینہ مراکز کی مرمت اور اس میں بحالی کے کاموں میں بھی پیش پیش تھے۔
تن تنہا زندگی
غزہ کی سرحد پر قرنطینہ میں 21 دن گذارنے والوں میں مصر سے لوٹنے والے ماھر الدعالسہ بھی شامل ہیں۔ انہیں رفح گذرگاہ عبور کرنے کے فوری بعد غزہ کے الکوموڈور ہوٹل منتقل کیا گیا۔
الدعالسہ کا کہنا ہے کہ میں 21 روز قرنطینہ میں رہنے کے بعد باہر آیا ہوں۔ میں صحت مند ہوں مگر اس کے باوجود میں مزید کچھ وقت تنہائی میں گذارنا چاہتا ہوں۔ تنہائی کی زندگی میرے لیے کافی مشکل تھی مگر اب میں اس کا عادی ہو رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جن لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے کسی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ہم سب کے مفاد میں ہے۔
الدعالسہ کا کہنا تھا کہ میں نے قرنطینہ مرکز میں 21 دن گذارنے کے بعد محسوس کیا کہ میرے اندر قوت ارادی میں اضافہ ہوا ہے۔
فلسطین میں فنون لطیفہ کے ماہر آرٹسٹ خالد نصار نے بتایا کہ میں نے قرنطینہ میں اپنا وقت بے کار نہیں گذرا بلکہ میں مختلف فن پارے تیار کرتا رہا۔اس کا کہنا تھا کہ میں نے قاہرہ میں بین الاقوامی کتاب میلے سے واپسی کے بعد یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ مجھے قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔
خالد نصار نے بتایا کہ میں نے قرنطینہ میں دیکھا کہ کوئی دوسرا شخص بھی میری طرح تخلیقی سوچ رکھتا ہے تو ایک لڑکی سامنے آئی۔ اس نے30 فن پارے تیار کیے اور میرے قرنطینہ منتقل کیے جانےسے قبل مجھے پیش کیے گئے۔
مصر سے غزہ منتقل ہونے والوں میں ابو جہاد کا پانچ افراد پرمشتمل خاندان بھی شامل تھا۔اس کا کہنا ہے کہ مجھے اور میرے خاندان کو جس میں میری اہلیہ، بیٹی اور دو دیگر خواتین شامل تھیں کو قرنطینہ منتقل کیا گیا۔
قرنطینہ میں حسن انتظام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ابو جہاد نے کہا کہ میں خود ایک پولیس کا ریٹائرڈ ملازم ہوں۔ میں نے دیکھا کہ قرنطینہ میں انتظامیہ نے اپنی بساط اور وسائل سے بڑھ کر مہمانوں کی خاطر مدارت کی۔