ویسےتو اسرائیلی زندانوں میں ہزاروں فلسطینی پابند سلاسل ہیں مگر بعض کی طویل ترین اسیری نے عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ انہی میں ایک 70 سالہ القدس کے فلسطینی رکن پارلیمنٹ محمد ابو طیر بھی ہیں جن کی آدھی عمر یعنی 35سال صہیونی دشمن کی قید میں گذری ہے۔ ابو طیر آج بھی دشمن کی قید میں ہیں۔
ابتدائی زندگی
محمد حسن ابو طیر 16 اپریل 1951ء کو مشرقی بیت المقدس کے علاقے ام طوبا میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے میٹرک تک الاقصیٰ الشریعہ اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اپنے گائوں کی مسجد میں پیش امام بن گئے۔
انقلابی تحریک سے وابستگی
سنہ 1972ء کو محمد ابو طیر تحریک فتح کے انقلابی گروپ ‘طارق بن زیاد’ میں شامل ہوئے۔ وہاں ان کی ملاقات سعد صائل سے ہوئی اور انہوں نے وہاں سے اپنی عسکری زندگی کا آغاز کیا۔ سنہ 1974ء کو اسرائیل نے انہیں گرفتار کیا گیا اور 13 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
سیدی عمر
سنہ 1985ء کو انہیں اسرائیلی جیل سے اس وقت رہائی ملی جب فلسطین میں اسلامک ایکشن نے اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کی قیادت کی تیاری شروع کررکھی تھی۔ انہوں نے حماس کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور سید عمر کے لقب سے عسکری گرمیوں کا آغاز کیا۔ اس دوران انہوں نے حماس اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے ساتھ بھی کورآرڈینیشن جاری رکھی۔ سنہ 1989ء کو اسرائیلی فوج نے انہیں دوبارہ حراست میں لے لیااور 13 ماہ قید کی سزا کے تحت جیل میں بند کردیا گیا۔
سنہ 1990ء میں رہائی کے چند ماہ بعد پھر گرفتار کرلیاگیا۔ گرفتاری سے قبل حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کی ایک ڈیل کے تحت ان کی رہائی عمل میں لائی گئی تھی۔ دوبارہ گرفتاری پرانہیں اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں چھ سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ حراست میں لیے جانے کے بعد ابو طیر کا تعارف دیگر گرفتار فلسطینی عسکری کمانڈروں کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے حماس کے عسکری ونگ کی تاسیس کی کوششیں کیں اور راز فاش ہونے پر انہیں مزید سات سال کے لیے سنہ 2006ء تک قید کردیا گیا۔
فلسطینی پارلیمنٹ کی رکنیت اور مزید گرفتاریاں
اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد الشیخ ابو طیر نے 25 جنوری 2006ء کو فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ انہوں نے انتخابات میں حماس کے پارلیمانی بلاک ‘اصلاح وتبدیلی’ کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگئے۔ اسرائیلی فوج نے 30 جون 2006ء کو انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا اور سنہ 2010ء کو انہیں القدس سے بے دخل کردیا گیا۔
چھ ستمبر 2011ء کو دوبارہ ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور انہیں انتظامی قید میں ڈال دیا گیا۔ انہیں کئی ماہ بعد رہا کیا گیا اور 2 جولائی 2013ء کو پھر گرفتار کرکے 25 ماہ تک قید میں رکھا گیا۔
قابض فوج نے 18 جنوری 2016ء کو انہیں دوبارہ حراست میں لیا اور 17 ماہ تک جیل میں رکھا۔ 13 مارچ 2019ء کو ایک بار پھر ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور 7 ماہ انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل رہے۔
حال ہی میں 13 اپریل کو اسرائیلی فوج نے ایک ایک بار پھر حراست میں لے لیا گیا اورا نہیں انتظامی قید کی سزا سنائی گئی۔