شنبه 16/نوامبر/2024

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کا ذمہ دار کون؟

جمعہ 8-مئی-2020

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کے بارے میں پہلے بھی خبریں آتی رہی ہیں۔ کرونا کی وبا پھیلنے اور لبنان میں معاشی ابتری کے خلاف ہونے والے احتجاج نے فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات اور مصائب میں غیر مسبوق اضافہ کیا ہے۔

اس وقت بیروت اور دوسرے لبنانی شہروں میں کیمپوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو بدترین معاشی، معاشتری، سماجی اور دیگر طرح طرح کی مشکلات درپیش ہیں اور ان کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

سنہ 1948ء میں فلسطین میں نکبہ کے دوران اسرائیلی اور یہودی مظالم سے لاکھوں فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑ کرنقل مکانی پرمجبور ہوئے۔ ان میں سے ہزاروں فلسطینی پناہ گزین لبنان میں آباد ہوئے۔ لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کل آبادی کا 10 فی صد ہیں۔

پناہ گزین کیمپ

لبنان میں رہنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کی نصف تعداد جو کے 4 لاکھ 60 ہزار بنتی ہے پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہی ہے۔ یہ فلسطینی لبنان میں 12 کیمپوں میں رہتے ہیں۔ نہر البارد، البداوی، برج البراجنہ، ضبیہ، مار الیاس، عین الحلوہ الرشیدیہ، برج الشمالی، البص، شاتیلا، ویفل(الجلیل) اور المیہ میہ پناہ گزین کیمپ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘اونروا’ کی طرف سے تسلیم شدہ ہیں۔

باقی فلسطینی پناہ گزین کیمپوں سے باہر شہروں اور قصبوں میں رہائش پذیر ہیں۔ فلسطینیوں نے اپنے طور پر کئی بستیاں قائم کر رکھی ہیں جن میں المعشوق، جبل المحر، شبریحا، القاسیہ، البرغلیہ، الواسطہ، العیتانیہ، ابو الاسود، عدلون الغازیہ، الناعمہ، سعد نایل اور ثعلبا وغیرہ جیسی فلسطینی پناہ گزین بستیوں کو اقوام متحدہ کی طرف سے باقاعدہ رجسٹرد پناہ گزین نہیں قرار دیا گیا۔

آغاز میں اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی نے لبنان میں 16 فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کی دیکھے بھال شروع کی۔ ان میں سے تین کیمپ جنگ کے برسوں میں تباہ ہوگئے۔ خاص طورپر سنہ 1974ء اور 1976ء کے درمیان ہونے والی لڑائیوں میں النبطیہ ، تل زعتر میں دکوانہ اور بیروت میں جسر الباشا کیمپ تباہ ہوگئے۔ ایک اور کیمپ جس کا مقامی سطح پر جرود نام لیا جاتا ہے فلسطینی پناہ گزینوں سے خالی کیا گیا۔ اس کیمپ سے فلسطینی پناہ گزینوں کو صور کے علاقے میں قائم الرشیدیہ پناہ گزین کیمپ منتقل کیا گیا۔

لبنان میں پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی تعداد چار لاکھ 60 ہزار ہے۔ یہ اعدادو شمار اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘اونروا’ کے ہیں جو کچھ ہی عرصہ قبل جاری کیے گئے تھے۔ لبنان میں زیادہ تر فلسطینی کھیتی باڑی کرتے، ماہی گیری کرتےیا تعمیراتی شعبے میں کام کاج کرکے رزوق کماتے ہیں۔ لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کو مقامی اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں 70 مختلف پیشوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔

لبنان میں فلسطینیوں کی تعداد سو فی صد حتمی نہیں۔ یہ معلومات فلسطینیوں کی طرف سے رضاکارانہ طورپر فراہم کی گئی ہیں جنہیں پیشہ وارانہ انداز میں جمع نہیں کیا گیا۔

پناہ گزینوں کی ہمہ نوع مشکلات

لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں بسنے والے لاکھوں فلسطینیوں کی حالت زار ناگفتہ بہ ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے سنگین مسائل ہیں۔ سوریج کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنی مرضی کے مطابق کسی قسم کی تعمیراتی کی اجازت نہیں اور کئی عشرے پرانے تعمیر کردہ مکانوں میں گنجائش سے زیادہ انتہائی نا مساعد حالات میں رہنے پرمجبور ہیں۔

بیروت میں امریکی یونیورسٹی کے اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ لبنان میں مقیم 72 فی صد مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان میں سے 15 فی صد جسمانی طورپر معذور ہیں۔

اسی طرح ایک تہائی فلسطینی غربت اور افلاس کا شکار ہیں۔ لبنان میں ایک لاکھ 60 ہزار فلسطینی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پرمجبور ہیں۔ یہ تعداد چار لاکھ 65 ہزار فلسطینیوں میں ہے۔ اس کے علاوہ 56 فی صد فلسطینی پناہ گزین بے روزگار ہیں۔ ان میں سے صرف 53 ہزار فلسطینی ہی برسر روزگار ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی 72 فی صد تعداد صرف موسمی کام کاج کرتی ہے۔ جن میں کھتی باڑی ،تعمیرات اور سینیٹری وغیرہ جیسے کام شامل ہیں۔ لبنان میں مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کے بہت سے حلقے ذمہ دار ہیں۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی اونروا بھی اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے میں ناکام ہے۔ اس کے علاوہ لبنانی حکومت کی طرف سے بھی فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے میں امتیازی سلوک برتے جانے کا الزام آتا رہا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو بہت سے مقامی پیشوں میں کام کاج کی اجازت نہیں جس کے نتیجے میں ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امداد دینے والے عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری بھی لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کی ذمہ دار ہے۔

مختصر لنک:

کاپی