جمعه 15/نوامبر/2024

حماس اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا تاریخی جائزہ

بدھ 13-مئی-2020

اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے خارجہ امور کے سربراہ محمد نزال نے حماس کے ایک وفد کی سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کا انکشاف کیا ہے۔

محمد نزال نے بتایا کہ حماس کی قیادت کی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے یہ ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب بن سلمان نائب ولی عہد تھے۔

خیال رہے کہ محمد بن سلمان اپریل 2015ء سے 21 جون 2017ء تک نائب ولی عہد رہے جس کے بعد اس وقت کے ولی عہد شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کو معزول کرکے محمد بن سلمان کو ولی عہد بنا دیا گیا تھا۔ سنہ 2015ء میں اس وقت کے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے بھی سعودی عرب کے نائب ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔

حماس رہ نما نے بتایا کہ سعودی نائب ولی عہد (موجودہ ولی عہد) سے ملاقات کرنے والے حماس کے وفد کی قیادت خالد مشعل نے کی تھی۔ خالد مشعل اس وقت حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ حماس کی قیادت اور محمد بن سلمان کے درمیان ایک اور ملاقات بھی طے تھی مگر وہ ملاقات نہیں ہوسکی۔

نزال نے بتایا کہ اس ملاقات کے بعد سعودی عرب میں گرفتار حماس رہ نما ماھر صلاح کو رہا کردیا گیا تھا۔ ماھر صلاح آج کل حماس کے بیرون ملک امور کے ذمہ دار ہیں اور وہ متعدد ساتھیوں سمیت سعودی عرب میں قید رہ چکے ہیں۔

محمد نزال کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے شاہ فہد بن عبدالعزیز اور شاہ عبداللہ کے دور میں حماس کے سعودی عرب کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم تھے۔

انہوں نے بتایا کہ شاہ فہد نے اپنے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز کے ذریعے حماس کو 50 لاکھ ریال کا عطیہ بھی دیا جب کہ شاہ عبداللہ نے اپنے بیٹے شہزادہ متعب کے ذریعے حماس کو ایک  کروڑ ریال کا عطیہ دیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں محمد نزال نے کہا کہ سعودی عرب کے موجودہ سربراہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور میں حماس کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مضبوط تھے۔ ان کے عہد میں حماس کی قیادت اور سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف ترکی الفیصل اور موجودہ چیف خالد الحمیدان کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔

محمد نزال نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ گرفتار کیے 60 فلسطینیوں کو فوری طور رہا کرے اور ان پر دہشت گرد تنظیم سے وابستگی کے الزامات ساقط کیے جائیں۔

چند روز قبل خالد مشعل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حماس نے ثالث ممالک کے ذریعے سعودی عرب میں قید حماس رہ نمائوں کی رہائی کی کوشش کی ہے مگر سعودی عرب کی حکومت نے ثالثی کی تمام کوششیں اور مطالبات مسترد کردیے۔

محمد نزال کا کہنا ہے کہ حماس بیرون ملک سے ملنے والی امداد اور فنڈز کی تفصیلات ظاہر نہیں کرتی مگر چونکہ سعودی عرب کی طرف سے فلسطینی قوم بالخصوص حماس کے حوالے سے جو معاندانہ پالیسی اپنائی ہے اس کے پیش نظر یہ بتانا ضروری ہے کہ حماس اور سعودیہ کے درمیان تعلقات کی موجودہ نوعیت ماضی سے مختلف ہے۔ اس وقت حماس اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی پائی جا رہے۔ دو طرفہ کشیدگی گذشتہ برس اپریل کے بعد سے جاری ہے۔ پچھلے سال اپریل میں سعودی پولیس نے مملکت میں موجود حماس کے رنمائوں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا۔ کریک ڈائون میں حماس کے سینیر رہ نما ڈاکٹر محمد الخضری اور ان کے بیٹے ھانی الخضری سمیت ایک سوسے زاید فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ حال ہی میں سعودی عرب کی ایک فوج داری عدالت میں ان پر دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے الزام میں مقدمہ چلانے کا آغاز کیا گیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی