رچانے والوں کے لیے واضح اعلان ہے کہ ان کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئی ہیں۔ فلسطینی علاقوں کا اسرائیل سے الحاق نام نہاد امن منصوبے کو قبر میں اتارنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وصفی قبہا نے کہا کہ غرب اردن پر اسرائیلی ریاس کا قبضہ مسجد ابراہیمی کو اپنی تحویل میں لینے اور مسلمانوں کو اس مقدس مقام سے محروم کرنے کی گھنائونی سازش ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فایدہ ہوا ہے۔ اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا بھی برابرکا شریک مجرم ہے۔
سابق فلسطینی وزیر کا کہنا تھاکہ فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس اسرائیل کے ساتھ تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر وہ فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے لیے سنجیدہ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا ، "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دھڑوں کو صرف صدر سے ملنے اور ان کی باتوں کو سننے کے لئے مدعو کیا جائے۔ بلکہ اسے مغربی کنارے اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے شدید حملے کا جواب دینے کے لئے مناسب طور پر تیار ہونا چاہئے تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اتھارٹی نے کرونا وبائی امراض کے سائے میں گرفتاریوں کو روکنے اور فلاحی کاموں کے تعاقب کے لیے سرگرم ہے اور اس حوالے سے فلسطینی اتھارٹی کا کردار انتہائی منفی ہے۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ وقتا فوقتا اتھارٹی اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اسرائیل سے مذاکرات کی باتیں کرتی ہے مگر اصل مفادا قومی مصالحت میں پنہاں ہے۔
انہوں نے فلسطینی بنکوں کی جانب سے اسیران اور شہداء کے اہل خانہ کے بنک اکائونٹس بند کرنے کے اقدام کو اسرائیل کی خوشنودی کے حصول اور دشمن کے دبائو کا شکار ہونے کے مترادف قرار دیا۔
ایک سوال کے جواب میں وصفی قبہا نے کہا کہ فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم کے بعد فلسطینی عوام میں مزاحمت کی لہر مزید تیز ہوئی ہے۔