اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہزاروں فلسطینیوں میں 75 سالہ عمر رسیدہ سعدی الغرابلی کا مستقبل مجہول اور نامعلوم ہے اور انہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ الغرابلی عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بیمار اور صہیونی حکام کی مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔
فلسطینی محکمہ اموراسیران کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ الغرابلی کی صحت کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ان کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ الغرابلی زندہ ہیں مگر ان کی زندگی شدید خطرے سے دوچار ہے۔
فلسطینی اسیر سھیل نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس سعدی الغرابلی کے بارے میں درست اور مصدقہ معلومات نہیں ہیں۔ ہمیں پہلے یہ اطلاع ملی ہمارے والد جیل میں صہیونی حکام کی مجرمانہ غفلت کے نتیجےمیں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی ہمار گھر میں تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ اس کے کچھ دیر بعد یہ اطلاع ملی کہ وہ زندہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ متضاد اطلاعات نے ہماری پریشانی میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے اور ہماری تکالیف پہلے سے بڑھ گئی ہیں۔ سھیل کا کہنا تھا کہ ریڈ کراس کی جانب سے ہمیں ان کے بارے میں کسی قسم کی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس پہلے الغرابلی کی شہادت کی خبر آئی۔ اس کے بعد اس کی تردید آگئی مگر ہمارے پاس دونوں خبروں کی تصدیق کا معقول اور مصدقہ ذریعہ نہیں کہ ہم کس پر اعتبار کریں۔
سھیل نے اسرائیلی جیل میں پابند سلاسل اپنے والد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں مدد اور ان کی رہائی کے لیے اسرائیل پر دبائو ڈالنے کا مطالبہ کیا۔
مقامی اخباری ذرائع کے مطابق الغرابلی اس وقت بستر مرگ پرہیں اور انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ ان کا آکسیجن جلد ہٹا دیا جائے گا اور اس کی کسی بھی وقت شہادت کی خبر آسکتی ہے۔
اگرچہ الغرابلی کی شہادت کی مصدقہ اطلاع نہیں ملی مگر اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید فلسطینیوں کی شہادتوں کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیلی زندانوں میں فلسطینیوں کو قید کیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد اب تک 223 فلسطینی تشدد اور بیماروں کے علاج میں مجرمانہ غفلت کے باعث شہید ہوچکے ہیں۔
خیال رہے کہ الغرابلی کو تل ابیب میں ایک اسرائیلی فوجی کو ہلاک کرنے کے الزام میں 7 نومبر 1994ء کو حراست میں لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد ازاں فوجی عدالت کی جانب سے انہیں تا حیات قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
الغرابلی غزہ کی پٹی کے علاقے الشجاعیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ شادی شدہ اور دس بچوں کے باپ ہیں۔ ان کا ایک بیٹا احمد الغرابلی سنہ 2002ء میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوگیا تھا۔ اس کی عمر بیس سال تھی۔