امریکا کےایک یہودی سائنسدان نے اسرائیلی ریاست کے حوالے سے ایسا بیان دیا ہے نے صہیونی ریاست کے لیڈروں اور اس کے حامیوں میں غم وغصے کی آگ بھر دی ہے۔ اورینٹ XXI نے ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی یہودی سائنسدان پیٹر پینارٹ نے جولائی 2020 کے اوائل میں اپنے دانشورانہ اور جذباتی انداز میں ایسا بیان دیا جو اسرائیلی ریاست کےلیے کسی بم سے کم نہیں۔
جولائی کے اوائل میں پینارٹ کےدو مضامین یکے بعد دیگر شائع ہوئے جن میں انہوںنے صہیونی ریاست کے فلسطینیوں کے خلاف برتائو کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان میں ایک مضمون میں انہوںنے "اسرائیل کی ریاست کے وجود اور اس کی آئینی حیثیت پر” پر سوال اٹھائے۔ انہوںنے فلسطینیوں کے ساتھ مساوات کا مطالبہ کیا گیا۔ دوسرے میں اس نے کھلے عام اعلان کیا کہ اسے اب یہودی ریاست پر یقین نہیں ہے۔
سائلوان سبیل کے لکھے ہوئے مضمون میں نیویارک یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر بینارٹ نے خود کو ایک ترقی پسند "لبرل” صہیونی قرار دیا ہے ، اور وہ براہ راست ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہیں جن کا تعلق اس کی صہیونی تحریک سے ہے۔
فرانسیسی ویب سائٹ نے بتایا بینارٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1993 میں اوسلو معاہدے کے مرکزی خیال پر جوش و جذبےکا اظہار کیا تھا اوراسےپسند کیا تھا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے لیے مکمل آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے پرزور حامی ہیں۔ لہذا انہوں نے لکھا کہ کوئی بھی "یہودی ریاست کا ترقی پسند اور حمایتی رہ سکتا ہے” لیکن "واقعات (اس کے بعد) اوسلو) نے اس امید ختم کردیا۔
جہاں تک دو علیحدہ ریاستوں کے امکان کا تعلق ہے تو بینارٹ کے بہ قول اب یہ تصور ختم ہوچکا ہے۔ صرف "کوریج” باقی ہے تاکہ فلسطینیوں کی محرومیوں کو مزید بڑھایا جا سکے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں ترقی پسند یہودیوں کو بھی اس حقیقت کا سامنا کرنے کی دعوت دیتا ہوں جو یہ تسلیم کریں کہ اگر فلسطین میں اسرائیلیوں کی ریاست ہوسکتی ہے تو فلسطینیوںکی کیوں نہیںہوسکتی۔