شمالی مغربی کنارے میں قلقیلیہ میں 15 سال سے زیادہ عرصہ سے زرعی نرسری میں کام کرنے والے علی داؤد کو اسرائیلی آباد کاری اسکیم کی وجہ سے سکون محسوس نہیں ہورہا ہے جس سے قلقیلیہ نرسریوں کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ داؤد اور دیگر مزدور اسرائیلی عدالتوں میں مہینوں سے اس اسکیم کو روکنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔
قلقیلیہ مغربی کنارے میں نرسریوں کا مرکز ہے ، اور یہ مغربی کنارے میں 80 فیصد سے زیادہ چھوٹے زرعی پودے تیار کرتا ہے لیکن اسرائیلی آبادکاری مہم کی وجہ سے یہ سب ختم ہونے کا خطرہ ہے۔
گذشتہ سال کے آخر میں ، قابض اسرائیلی حکام نے آبادکاری اسٹریٹ (531) کو200 ملین شیکل کے عوض بڑھانے کے ایک نئے اسرائیلی منصوبے کے بارے میں ایک فیصلہ جاری کیا۔ عملی طور پر اس کا مطلب قلقیلیہ کی نرسریوں کو ختم کرنا ، زمینیں چوری کرنا ، اور آبادکاری کے نءے منصوبوں کا قیام ہے۔
داؤد کا اندازہ ہے کہ اسرائیلی آباد کاری کے منصوبے کا ایک مقصد قلقیلیہ کی نرسریوں کو مسمار کرنا ہے کیونکہ وہ معیار اور قیمت کے لحاظ سے اسرائیلی نرسریوں سے بہتر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ، "ہم عادی ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی معاشی شعبہ جو اسرائیل کا مقابلہ کرتا ہے قابض صہیونی ریاست کے اقدامات سے تباہ ہوجاتا ہے۔”
مزاحمتی کارکن صلاح الخواجہ نے تصدیق کی کہ اس فیصلے کا مقصد آبادکار بستیوں کو ایک شاہراہ کے ذریعے 1948 کی مقبوضہ اراضی سے جوڑنا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس منصوبے سے گلی کے دونوں اطراف میں واقع فلسطینی نرسریوں کی اکثریت پوری طرح تباہی ہو جاءے گی اور انھیں بھاری نقصان ہوگا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ نرسریاں قلقیلیہ کے علاقے میں فلسطینی افرادی قوت کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ، جہاں سے ہزاروں فلسطینیوں کی سالانہ آمدنی کی مالیت تقریبا 150 ملین شیکل ہے۔
قلقیلیہ زراعت کے ڈائریکٹر ، احمد عید کا کہنا ہے کہ ، "قلقیلیہ میں 53 نرسریاں ہیں جو تقریبا 80 فیصد پودے پیدا کرتی ہیں اورجس سے سیکڑوں مستقل اور عارضی ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔”
عید نے مزید کہا ، "ان میں سے زیادہ تر نرسریاں 1000-1500 ایکڑ تک کے علاقوں پر دیوارعلیحدگی کے پیچھے واقع ہیں۔ مزدوروں کودرپیش تمام تر تکالیفوں کے باوجود یہ ابھی بھی قلقیلیہ صوبے کے زرعی شعبے کا ایک اہم ستون ہے۔
انہوں نے اس بات کا اشارہ کیا کہ ان نرسریوں کی سالانہ پیداوار میں دس ملین سے زیادہ پودے شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قلقیلیہ میں موجود نرسریاں فلسطینی زرعی پیداوار کی بنیاد ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ ان پودوں کی کھپت کو مغربی کنارے اور 1948 کے مقبوضہ علاقوں اور بیرون ملک بانٹا جاتا ہے۔
قابض اسرائیلی عدالتوں میں نرسری کا مقدمہ لڑنے والی قانونی ٹیم کی وکیل وعام شبيطة کہتی ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جو بین الاقوامی قانون کے منافی ہے۔ انہوں نے یہ بھی انتباہ کیا کہ سڑک کے لئے نامزد لین کی چوڑائی تقریبا 165 میٹر ہے جبکہ موجودہ گلی کی چوڑائی 30 میٹر ہے۔
شبيطة نے مزید کہا کہ یہ سڑک كيريني شومرون ، تسوفيم اور دیگر بستیوں سے تعلق رکھنے والے صہیونی آبادکار استمعال کرتے ہیں۔ جبکہ اسرائیلی قابض فوج فلسطینیوں کو سول انتظامیہ سے اجازت نامے حاصل کرنے کے سوا اس سڑک سے گزرنے سے روکتی ہے۔
اسرائیلی بستیوں کے ذریعہ نرسریوں کے معدوم ہونے کا خطرہ
پیر 5-اکتوبر-2020
مختصر لنک: