جمعه 15/نوامبر/2024

پوری دنیا بھی خلاف ہو اسرائیل کے سامنے نہیں جھکیں گے

اتوار 11-اکتوبر-2020

اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کی قیادت میں جماعت کا اعلیٰ اختیاراتی وفد روس کی سرکاری دعوت پر جمعرات کو ماسکو پہنچا۔ یہ دورہ اپنی زمانی اہمیت کے اعتبار سے غیرمعمولی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
دورے کی اہمیت کے بارے میں حماس کے وفد کے سربراہ ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی بات چیت کی۔

ابو مرزوق نے بتایا کہ انہوں نے روس میں روسی نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف اور دیگر روسی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں انہوں‌نے فلسطین کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں انہیں آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ وہ ماسکو میں‌ قائم فلسطینی سفارت خانے میں بھی گئے جہاں انہوں نے فلسطینی سفیر اور دیگر سفارت کاروں کے ساتھ فلسطین کی موجودہ صورت حال پر بات چیت کی۔

ایک سوال کے جواب میں ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ فلسطین اس وقت مشکل دور سے گذر رہا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے ملی بھگت سے فلسطینی قوم کا محاصرہ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا مالی اور سیاسی محاصرہ کر کے فلسطینی قوم کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو مرزوق نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس ملک وقوم کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہے مگر ہم صہیونی دشمن کے سامنے نہیں ‌جھکیں گے۔

انہوں‌ نے کہا کہ امریکا کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی پر مالیاتی دبائو، فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد بند کرنے، عرب ممالک کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو قرض کی ادائی سے انکار اور ماضی میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے انحراف جیسے واقعات نے فلسطینی اتھارٹی کو ایک بڑی مشکل میں ‌ڈال دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کا کوئی بچہ بھی صہیونی دشمن کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔ موجودہ مشکل حالات کو سامنے رکھتے ہوئے حماس اور تحریک فتح نے مل کر آگے بڑھنے اور موجودہ بحرانوں سے نکلنے کا عزم کیا ہے۔

دورہ روس کی اہمیت

ایک سوال کے جواب میں ابو مرزوق نے کہا کہ حماس کے وفد نے ایک ایسے وقت میں روس کا دورہ کیا ہے جب فلسطینی قوم مشکل ترین حالات سے گذر رہی ہے۔ آج کے دن ماضی سے بہت مختلف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قضیہ فلسطین ماضی میں عرب ممالک کا مرکزی حل طلب معاملہ رہاہے۔ ماضی میں عرب ممالک قضیہ فلسطین کے منصفانہ حل کی قراردادوں پر متفق رہے ہیں۔ سنہ 2002ء میں بیروت میں‌ ہونے والے عرب سربراہ اجلاس میں قضیہ فلسطین کے حل کے لیے ایک فارمولہ پیش کیا گیا تھا۔ اس فارمولے پر تقریبا بیشتر عرب ممالک کا اتفاق تھا۔

عرب ملکوں کی اسرائیل دوستی کی مہم

ایک سوال کے جواب میں ابو مرزوق نے کہا کہ حالیہ عرصے کے دوران ہم امریکا اور بعض دوسرے ممالک کے دبائو کےتحت بعض عرب ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ دوستی کی مہم کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ ان ممالک نے امریکا کی خوش نودی کے لیے قضیہ فلسطین کو فراموش کر دیا ہے۔ ان ممالک اپنی ہی منظور کی گئی قراردادوں کی نفی اور مخالفت شروع کی ہے۔

ابو مرزوق نے کہا کہ اسرائیل سے دوستی کی حمایت اور مخالفت کے معاملے پر اس وقت عرب ممالک دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ تاہم اس کے نتیجے میں قضیہ فلسطین کا دفاع کم زور ہوا ہے۔ عرب ممالک میں پائے جانے والے اختلافات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک چھ ممالک نے عرب لیگ کے وزارت خارجہ سطح کے اجلاس کی صدارت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کا پس منظر عرب لیگ کے فورم پر اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ چند ہفتے قبل عرب لیگ کے اجلاس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی مذمت پرمبنی قرار بعض با اثر ممالک کی مداخلت کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھی اور عرب لیگ اس حوالے سے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کرسکی۔ اس بیان میں امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی  مذمت کی گئی تھی تاہم عرب ممالک نے اس قرارداد کی حمایت نہیں کی۔

ابو مرزوق نے کہا کہ اس وقت ہم عرب دنیا میں پائے جانے والے اختلافات کا تذکرہ کررہے ہیں۔ کئی عرب ممالک پہلے ہی داخلی عدم استحکام سے دوچار ہیں۔ شام اور  لیبیا جیسے عرب ممالک خانہ جنگی سے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ کئی عرب ممالک خطے میں ایران کے مزعومہ اثررو نفوذ کی آڑ میں اپنی ساری توجہ ایران کی طرف مرکوز کیے ہوئے ہیں اور ان کے نزدیک فلسطین کا مسئلہ ثانوی نوعیت سے بھی پیچھے چلا گیا ہے۔

فلسطینی علاقوں کا الحاق اور امریکی انتخابات

موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ غرب اردن کے علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا منصوبہ آج بھی اسرائیل اور امریکا کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ یہ منصوبہ صرف عارضی طور پر موخر کیا گیا ہے۔ یہ تاخیر امریکا میں آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اوران کے حریف جو بائیڈن دونوں کے ایجنڈے میں فلسطین ۔ اسرائیل تنازع کے حل کا نکتہ شامل ہے مگر دونوں کا فلسطین ۔ اسرائیل تنازع کے حوالے سے نقطہ نظر مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں قضیہ فلسطین کے حوالے سے ہمیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ القدس منتقل کیا، فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کی نفی کی، فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمہ دار ایجنسی ‘اونروا’ کے فنڈز بند کیے، فلسطین پر اسرائیلی تسلط مستحکم کرنے کے لیے نام نہاد سینچری ڈیل پیش کی اور عرب ممالک کو بلیک میل کرکے انہیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا موقع فراہم کیا۔

مختصر لنک:

کاپی