جمعه 15/نوامبر/2024

فیس بک کے بعد ‘ٹویٹر’ پر بھی فلسطینی اکائونٹس کی بندش

اتوار 1-نومبر-2020

بدقسمتی سے سماجی رابطوں کی بین الاقوامی شہرت یافتہ اور مقبول ویب سائٹس اور پلیٹ فارم ایسے ملکوں اور لوگوں کی ملکیت میں قائم ہیں جو بہ ظاہر آزادی اظہار، انسانی حقوق کی حمایت اور انسانی مساوات کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

گذشتہ کچھ عرصے کے دوران سماجی رابطوں‌کی ویب ساٹ ‘فیس بک’ نے فلسطینیوں کی حمایت اور صہیونی ریاست کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے والے اکائونٹس، صفحات اور گروپوں کو بلاک کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں فلسطین بھر اور فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے سخت پریشانی اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔

فیس بک کی فلسطین دشمن اور اسرائیل نوازی کی دیکھا دیکھی مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر نے بھی ان دنوں ایسی ہی ایک مایوسانہ مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس مہم کے تحت فلسطینی قوم کی مظلومیت پرمبنی مواد شائع کرنے والے اکائونٹس کو بند کیا جا رہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر کی طرف سے فلسطینی نصب العین کی حمایت کرنے والوں کے اکائونٹس کی بندش دراصل فلسطینی موقف کو دبانے اور اسرائیلی ریاست اور صہیونی لابی کے دبائو میں آکر اسرائیلی ریاست کے بیانیے کو تقویت دینا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا بھی جنگ کا ایک میدان ہے اور اس میدان میں فلسطینیوں اور انسانی حقوق کے علم داروں کو بات کہنے اور دوسروں تک پہنچانے کی وہ آزادی حاصل نہیں جو صہیونی ریاست کے حامیوں کو حاصل ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کے مطابق فیس بک اور ٹویٹر دونوں نے نصرت فلسطین کے ترجمان کئی صفحات اور اکائونٹس کو بلاک کیا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق ایسے لگتا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر کی انتظامیہ کو ‘فلسطین’ کے نام سے چڑ ہے۔

بند کیے جانے والے صفحات میں مرکزاطلاعات فلسطین کے فلسطین ڈائیلاگ فورم کا صفحہ بھی شامل ہے جس کے 3 لاکھ 50 ہزار فالورز تھے۔ اس کے علاوہ مرکز اطلاعات فلسطین کی انگریزی سائٹ کا بھی فیس بک پیج بلاک کیا گیا۔
فیس بک اور ٹویٹر کی طرف سے جاری کردہ بیانات میں کہا جاتا ہے کہ ان پیچیز پر کمپنیوں کے پالیسی کے خلاف مواد نشر اورشائع کیا جاتا ہے۔ تاہم مبصرین نے اسے اسرائیلی ریاست کی بلیک میلنگ، نسل پرستی اور اسرائیل نوازی قرار دیا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار اور سماجی ویب سائٹس کے امور کے ماہر محمود حربیات نے مرکزاطلاعات سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فلسطینی قوم کا تشخص مٹانے کے لیے سوشل میڈیا کو ایک فوجی حربے کے طوعر پر استعمال کررہا ہے۔  فلسطینیوں کی حمایت پر آواز بلند کرنے والے اکائونٹس کی بند فلسطینیوں کی آواز کو دبانا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں‌نے کہا کہ فلسطینی حقیقی بانیے کوبیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ صہیونی ریاست فلسطینی کنٹینٹ کو دبانے کے لیے فیس بک اور ٹویٹر کی انتظامیہ پر دبائو ڈال رہا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی حمایت اور فلسطینی کاز کی ترجمان کرنے والے صفحات کی بندش کی ایک وجہ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کی مہم بھی شامل ہے۔ اسرائیل سوشل میڈیا ورکنگ ویب سائٹس کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے قریب ہو رہے ہیں جب کہ فلسطینیوں نے خواہ مخواہ اسرائیل کے ساتھ دشمنی پال رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب ممالک کے ہاں‌بھی فلسطینی کاز پربات کرنا اور فلسطینیوں‌کی نصرت کے لیے بولنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی