فلسطینی پناہ گزینوں کی مالی کفالت کے ذمہ دار اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ‘اونروا’ کے ہائی کمشنر فیلپ لازارینی نے کہا ہے کہ ‘ یو این’ ریلیف ایجنسی اس ماہ اپنے ملازمین کو تںخواہیں ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اونروا’ کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کو پانچ ریجن میں 28 ہزار سے زاید ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں مگر نومبر کا مشاہرہ ادا کرنے کے لیے ایجنسی کے پاس رقم نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بات اردن کے دارالحکومت عمان میں ‘اونروا’ کی ایک مشاورتی میٹنگ کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ یو این ریلیف ایجنسی صحت، تعلیم، سماجی شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں، صفائی کے عملے اور دیگر شعبوں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کو تنخواہ ادا نہیں کی جاسکے گی۔
یہ بات واضح رہے کہ ‘اونروا’ میں کام کرنے والے بیشتر ملازمین فلسطینی پناہ گزینوں ہی میں سے ہیں۔ اگر ریلیف ایجنسی کی طرف سے 28 ہزار ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں اندرون اور بیرون ملک غیر ملکی امداد پرگذر بسر کرنے والے فلسطینیوں کی مشکلات میں غیرمعمولی اضافہ ہوسکتا ہے جو کہ پہلے ہی وہ بدترین معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ‘اونروا’ کی طرف سے تنخواہوں کی ادائی سے معذرت کا اعلان اپنے اندر شدید خطرات سموئے ہوئے ہے اور اندرون اور بیرون ملک ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اس فیصلے کے منفی اثرات کا سامنا کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ریلیف ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسے اس وقت 10 کروڑ 15 لاکھ ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا ہے اور اسے تنخواہوں کی ادائی کے لیے فوری طور پر 7 کروڑڈالر کی ضرورت ہے۔
خطرناک پیش رفت
فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی’ دفاع پناہ گزین کمیٹی 302′ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے ‘اونروا’ کے سربراہ کا بیان خطرناک پیش رفت ہے۔
کمیٹی کے ڈائریکٹر علی ھویدی نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اونروا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزین ملازمین کو تنخواہوں کی ادائی سے معذرت کے خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایجنسی کو قائم ہوئے 70 سال ہوگئے ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے جب ‘اونروا’ نے اپنے مستقل ملازمین کی تنخواہوں کی ادائی سے معذرت کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مسٹر ھویدی کا کہنا تھا کہ ملازمین کی تنخواہوں کا بحران ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب لاکھوں فلسطینی پناہ گزین پہلے انسانی، معاشی، معاشرتی اور دیگر سنگین نوعیت کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اونروا کی طرف سے فلسطینی ملازمین کی تنخواہیں روکی گئیں تو اس کے نتیجے میں پناہ گزینوں میں فاقہ کشی کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔
ھویدی نے کہا کہ امریکی حکومت کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی ریلیف ایجنسی کی امداد بند کرکے ایجنسی کو مالی بحران سے دوچار کیا ہے۔ نئی امریکی حکومت اس حوالے سے کب کیا اقدامات کرتی ہے، اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
بحران کا سیاسی محرک
غزہ کی پٹی میں عوامی فلاح وبہبود کمیٹی کے چیئرمین عصام یوسف نے کہا ہے کہ ‘اونروا’ کے مالی بحران کا اصل سبب مالی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔
عصام یوسف نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اور امداد دینے والے ملکوں کو ‘اونروا’ کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد فلسطینی پناہ گزینوں کو مالی اور قانونی معاونت فراہم کرنا تھا اورا نہیں وطن واپسی تک تحفظ دینا تھا۔ اس لیے اقوام متحدہ اور عالمی برداری اس ادارے کی مالی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ‘اونروا’ کی طرف سے فلسطینی ملازمین کی تنخواہیں روکی گئیں تو اس کے پناہ گزینوں کی روز مرہ زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں عصام یوسف کا کہنا تھا کہ اونروا کے مالی بحران کا محرک سیاسی ہے۔ امریکا اور دوسرے ممالک اس ادارے کو اسرائیل کی نظر سے دیکھ کر سیاسی رنگ دینے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے عرب اور مسلمان ملکوں پر زور دیا کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو یقینی بنانے اور لاکھوں فلسطینیوں کی وطن واپسی تک ان کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔