مراکش کی حکومت کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات استوارکرنے پر مراکشی قیادت کی طرف سے سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ مراکش کے رکن پارلیمنٹ اور بین الاقوامی علما کونسل کے رکن علامہ ابو زید الادریسی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کرنا دھوکہ ہے۔
الادریسی نے اخبار میں لکھے اپنے مضمون میں حکومت کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اعلان پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے امریکی صدر کے لیے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو منسوخ کرنا کوئی مشکل نہیں مگر مراکش کی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنا خطرے اور دھوکے کا سودا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے میں واپس آنے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں۔ ہم بہت کمزور ملک ہیں۔ حتیٰ کہ صہیونی دشمن کو چاقو بھی نہیں دکھا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ کسی ملک کی طرف سے فلسطینیوں کے لیے ظاہری جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سنہ 1988ء میں یاسرعرفات نے جب جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں خطاب کیا تو 100 ملکوں نے تالیاں بجائی تھیں۔
انہوںنے کہا کہ 13 ستمبر 1993ء کو سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے غزہ اور اریحا معاہدے پر دستخط کیے۔ اسرائیل بھی اس معاہدے کو تسلیم کیا کیا اور اس کے بعد اسرائیلی لیڈر کو اسحاق رابین کو امن کا نوبل انعام دیا گیا مگر کیا اس معاہدے سے فلسطینی قوم کو کیا ملا؟
مراکشی رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ان تمام ذمہ داریوں میں سے کسی کو بھی پورا نہیں جو اسے سونپی گئی تھیں۔