فلسطین کے عسکری اور تزویراتی امور کے ماہر میجر جنرل محمد الصمادی نے کہا ہے کہ مقبوضہ عسقلان شہر اور غزہ کی پٹی کے اطراف کی بستیوں پر مزاحمتی راکٹ حملے اسرائیلی قابض دشمن کے خلاف مزاحمت کے عسکری اور سیاسی پیغام کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہیہ راکٹ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب ایران میں حماس کےسیاسی بیورو کےسربراہ اسماعیل ھنیہ کی شہادت کے بعد ایران نے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ فلسطینی مزاحمتکی طرف سے یہ راکٹ حملے اس بات کا پیغام ہیں صہیونی دشمن کےخلاف جنگ بڑے پیمانے پرشروع ہوسکتی ہے۔ یہ حملہ ایک وارننگ ہے۔
غزہ کی پٹی میںفلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے 303 ویں روز اسرائیلی قابض حکام نے اتوارکو غزہ سے فائر کیے گئے راکٹ گرنے کے بعد اسدود میں یہودی آباد کاروں کے لیے پناہگاہیں کھول دیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی سے جنوب کی جانب 5 راکٹ داغےگئے، جن میں سے ایک عسقلان کے ساحل پر واقع علاقائی کونسل کے علاقے میں گرا۔
جنرل ریٹائرڈ الصمادینے ’’الجزیرہ‘‘ ٹی وی کو غزہ کی پٹی کے فوجی منظر کے تجزیے میں وضاحت کی کہ مزاحمتی قوتیں پےدر پے بمباری کی کارروائیوں سے ثابت کرتی ہیں کہ وہ اب بھی ایسے راکٹ داغنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو اسرائیل کے اندرونیعلاقوں میں گھس سکتے ہیں اور اسرائیلی آئرن ڈوم سسٹم انہیں نہیں روک سکتا۔
الصمادی نے مزیدکہا کہ اس وقت غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس کے علاقے سے راکٹ داغنا ایران اوراسرائیل پر مزاحمتی محور کی افواج کی طرف سے کسی بھی ممکنہ حملے کی تیاریوں کیعلامت ہے۔
دفاع تجزیہ کار کا خیالہے کہ غزہ کے مسلح دھڑے مستقبل میں کسی بھی محاذ آرائی میں راکٹ سیلو فائر کر دشمنکے خلاف جنگ میں حصہ لیں گے جس سے آئرن ڈوم اور ریڈارز کی تاثیر متاثر ہو گی اور میزائلوںاور ڈرونز کو مقبوضہ علاقوں میں اپنے اہداف تک پہنچانے میں آسانی ہو گی۔
الصمادی نے توجہدلائی کہ خان یونس میں قابض فوج کی موجودگی راکٹ داغنے سے نہیں روک سکی جو غزہ کوکنٹرول کرنے میں اسرائیلی فوج کی ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہراکٹ سرنگوں کے نیٹ ورک کے اندر چھپے ہوئے علاقوں سے داغے جاتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کیکہ عسقلان اور آس پاس کی بستیوں تک پہنچنے والے راکٹوں کی رینج 60 کلومیٹر سے زیادہتک پہنچ گئی۔ مزاحمت کے پاس اب بھی راکٹوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ انہوں نے نشاندہیکی کہ مزاحمتی فورسزراکٹوں کے لانچ کو اسطرح سے مربوط کرنے کے لیے کام کر رہی ہے جس سے طویل مدت تک کارروائیوں کے تسلسل کویقینی بنایا جا سکے۔
الصمادی نے زوردے کر کہا کہ اسرائیلی داخلی اور انتہائی دائیں بازو کی حکومت پر ان میزائلوں کےنفسیاتی اور اخلاقی اثرات بہت زیادہ ہیں، جس سے قابض فوج کی تیاریوں میں الجھن پیداہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عسقلان اور آس پاس کی بستیوں کو نشانہ بنانے سےفوج کی نقل و حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور اس کی فوجی تیاریوں پر اثر پڑتا ہے۔
انہوں نے یہ نتیجہاخذ کیا کہ اسرائیل اپنی داخلی صلاحیتوں سے خود کی حفاظت نہیں کر سکتا اور اس کیوجہ سے وہ مغربی حمایت پر انحصار کرتا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکہ اوربرطانیہ کے بحری جہاز میزائل دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے خطے میں پہنچ گئے۔ یہاسرائیل کی مدد کے لیے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہغزہ کی جنگ نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی انٹیلی جنس ناکامی کو ثابت کردیا ہے۔قابض ریاست اپنی حکمت عملی سے کامیابی کے دعوؤں کے باوجود اپنے سیاسی مقاصد حاصلکرنے میں ناکام رہی ہے۔