مرکز اطلاعات فلسطین، غزہ
نوجوان لڑکے محمد، سوار اور جہاد غزہ کے وسط میں واقع البصہ کے ایک خیمے کے سامنے اپنی دادی کے گرد جمع ہیں، جہاں وہ روایتی پکوان زعتر مناقیش کے پکنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
یہ آٹے، تھائیم جیسی جڑی بوٹیوں پر مشتمل مسالہ، اور زیتون کے تیل کے امتزاج سے تیار ہونے والی ایک چپٹی روٹی ہے۔
ان کی دادی ام طارق کہتی ہیں کہ وہ بھوک مٹانے کی کوشش میں زیتون کے تیل کے بغیر جو بھی آٹا اور زعتر(تھائم) میسر ہے اس سے مناقیش تیار کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پوتے پوتیاں اس سے زیادہ خوراک چاہتے ہیں، لیکن وہ بہت کم کر سکتی ہے۔ بازاروں میں خریدنے کے لیے شاید ہی کوئی چیز ہے، اور اگر کوئی چیز دستیاب ہے، تو وہ بہت زیادہ قیمتوں پر ملتی ہے۔
لہذا، وہ روایتی، مناقیش بناتی ہیں، اور یہ ان کا دن بھر کا کھانا ہوتا ہے۔”بھوک ہمیں سخت مار رہی ہے، اور روٹی کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا ایک جنگ بن گیا ہے۔” انہوں نے کہا۔
جب ان کے پوتے محمد (7 سالہ) سے بات کی گئی تو ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے ،وہ اپنے چچا اور ان کے بچوں کو یاد کر رہے تھے، جو یکم مارچ کو اسرائیلی نسل کشی کی جنگ میں شہید ہوچکے تھے۔
محمد کہتے ہیں کہ "انہوں نے ہمیں ہر چیز سے محروم کر دیا: کھیل، اسکول اور زندگی۔ اور اب وہ ہمیں کھانے سے بھی محروم کر رہے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ وہ روزانہ مناقیش کھاتے ہیں، مگر "ہم گوشت، مرغی اور مٹھائیاں چاہتے ہیں۔”
خیال رہے کہ ، اکتوبر 2023 کے بعد سے، غزہ پہنچنے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد اب تک کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، جس کی وجہ سے بازاروں میں اشیا کی شدید قلت ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں نے شمالی غزہ کی صورتحال کی طرح جنوبی غزہ میں قحط پھیلنے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔
اس وقت، 25 کلو گرام آٹے کے تھیلے کی قیمت 50 ڈالر یا اس سے زیادہ ہے، اور مختلف اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جو کہ اس جاری نسل کشی کے دوران لوگوں کی قوت خرید سے بالکل متصادم ہے، جبکہ مقامی ذرائع کا اندازہ ہے کہ تقریباً 90 فیصد سامان بازاروں سے غائب ہے۔
ایسے میں ، شہری اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے طریقے تلاش کرنے پر مجبور ہیں، جس میں کچھ ڈبہ بند سامان کے علاوہ چند ہی اختیارات ہیں، جن کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے۔ انہی میں زعتر مناقیش بھی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ پہنچنے والی انسانی امداد کو خاص طور پر شمالی علاقوں میں خاصی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انروا کا کہنا ہے کہ غزہ میں 1.8 ملین سے زیادہ فلسطینی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں جنہیں بحرانی پیمانے اور اس سے اوپر کے مرحلے 3 کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کےمطابق، شدید غذائی قلت جنگ سے پہلے کے مقابلے دس گنا زیادہ ہے۔ حال ہی میں، اسرائیل نے غزہ میں داخل ہونے والی امداد کے حجم کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے، جس کے بعد جنوبی اور وسطی غزہ میں قحط کے واضح آثار نظر آ رہے ہیں، جیسا کہ غزہ شہر اور شمالی سیکٹر میں ہو رہا ہے۔
اسرائیل غزہ کی برآمدات کی نقل و حرکت کو کراسنگ پر مکمل طور پر کنٹرول کرتا ہے، اشیا اور اشیائے خوردونوش کی آمد کو روکتا ہے، اور فلسطینی مزاحمت پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھوک کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو خوراک اور زندہ رہنے کے ذرائع سے محروم کر رہا ہے۔