رام اللہ – مرکز اطلاعات فلسطین
گذشتہ نو ستمبر سے اردن کے ساتھ قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے کراما کراسنگ کی تجارتی گزرگاہ کی مسلسل بندش کے نتیجے میں فلسطینی تجارتی نقل و حمل کا شعبہ روزانہ تقریباً 900,000 شیکل 243,000 ڈالرکا نقصان ہو رہا ہے۔
اردنی شہید مہر الجاری کی جانب سے کراما کراسنگ آپریشن کے بعد سے تجارتی گزرگاہ بدستور بند ہے جبکہ غزہ کی پٹی کے ساتھ تجارتی رابطہ گذشتہ مئی سے بند ہے۔ اس کے علاوہ قابض حکام نے مقبوضہ علاقوں کے ساتھ کراسنگ کے ذریعے داخل ہونے اور باہر نکلنے کی اجازت دینے والے ٹرکوں کی تعداد کو کم کر دیا، جس سے فلسطینیوں کی اقتصادی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی اور سامان کی نقل و حرکت مفلوج ہو گئی۔
العربی الجدید اخبار کی جانب سے منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ اقتصادی نقصان کراما کراسنگ کی بندش میں مرتکز کی وجہ سے ہوا کیونکہ اردن سے درآمد شدہ سامان کا مقبوضہ مغربی کنارے میں داخلہ روکا گیا۔ سبزیاں، پھل، کھانے پینے کی اشیاء اور تعمیراتی مواد سمیت ہر قسم کے مواد کی منتقلی روک دی گئی ہے۔
فلسطین میں ٹرانسپورٹ ورکرز کی جنرل یونین میں تجارتی نقل و حمل کے شعبے کے عہدیدار عادل عمرو نے کہا کہ "تقریبا دو ماہ تک جاری رہنے والی بندش کے ساتھ تجارتی نقل و حمل کے شعبے کو روزانہ تقریباً 900,000 شیکل یا 2 لاکھ 43 ہزار ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے، جب کہ کل بندش کے آغاز سے لے کر اب تک کا نقصان تقریباً 60 ملین شیکل تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اردن کی جانب تقریباً ایک ہزار تجارتی ٹرک کھڑے ہیں کیونکہ انہیں فلسطینی علاقوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ان میں لدی ہوئی اشیا کا ایک بڑا حصہ خراب ہو گیا ہے، جب کہ محدود تعداد میں ٹرکوں کی آمدورفت ہے۔
قابض حکام نے آٹھ ستمبر کو مہر الجازی کی جانب سے کیے گئے شوٹنگ کے حملے کے بعد جس کے نتیجے میں تین اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے تھے کےبعد کراما کراسنگ کے ذریعے درآمدی اور برآمدی سامان کے ٹرکوں کی نقل و حمل میں تجارتی کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
عمرو کے مطابق تقریباً 500 تجارتی ٹرک روزانہ اردن کے راستے مغربی کنارے میں داخل ہوتے تھے اور کراسنگ بند ہونے سے پہلے یہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بازاروں سے اشیا کی آمد و رفت میں رکاوٹ صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافے کا باعث بنی، جس سے فلسطینی شہری پر اضافی بوجھ پڑا، جو برسوں سے مجموعی طور پر مشکل معاشی حالات سے دوچار ہیں۔
زرعی نقصانات
دوسری جانب فلسطینی کسان کراسنگ کی بندش سے خاص طور پر زیتون کے موسم میں بڑے معاشی نقصانات کا شکار ہیں۔ کسانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کراسنگ سے گذرنے والوں کو فلسطینی تیل بیرون ملک لے جانے کے لیے ہزاروں شیکل ادا کریں۔ اس عمل کو "ڈپازٹ ٹرانسفر” کہا جاتا ہے۔
تیل اور زیتون کی کونسل کے سربراہ فیاض فیاض نے وضاحت کی کہ یہ کوئی ایکسپورٹ آپریشن نہیں ہے اور اس پر کوئی ٹیکس یا کسٹم نہیں لگایا جاتا۔ تاہم کسان فلسطین سے عرب خلیجی ریاستوں اور دیگر ممالک تک نقل و حمل کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بیرونی مداخلتوں کے بعد زیتون کے تیل کو العربا کراسنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت دی گئی، جسے اسرائیل میں کراما کراسنگ کے ذریعے روایتی راستے کی بجائے "یتزاک رابن کراسنگ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ کراسنگ جنوبی اردن کو عقبہ سے ملاتی ہے اور مقبوضہ شہر ایلات کے قریب ہے۔ لیکن ان تبدیلیوں نے فلسطینی کسان کو اضافی اخراجات برداشت کرنے پر مجبور کیا، کیونکہ نقل و حمل کی فیس تقریباً 2,500 شیکل (675ڈالر) فی ٹرک سے بڑھ کر تقریباً 17,000 شیکل (4,590 ڈالر) ہوگئی۔
اس راستے سے 4 سے 5 ٹن تیل کی نقل و حمل طے شدہ ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران کراما کراسنگ کی بندش سے کسانوں کے پاس بڑی مقدار میں زیتون کا تیل جمع ہو گیا جس کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی۔
انتقامی پالیسیاں
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گذشتہ دو مہینوں کے دوران کراما کراسنگ کی بندش کے نتیجے میں فلسطینی معیشت کو ہونے والے مجموعی نقصانات کا تخمینہ تقریباً ایک بلین شیکل (,270,000) لگایا گیا ہے کیونکہ فلسطینی منڈی میں تجارتی نقل و حرکت کو اس راستے سے آنے والے سامان سے روک دیا گیا تھا۔ ا
فلسطین میں فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے خزانچی عمار ابوبکر کا کہنا ہے کہ فلسطینی معیشت پر اسرائیلی پابندیاں عوامی بائیکاٹ مہمات کے متوازی ہیں جن میں اسرائیلی اشیا اور مصنوعات کو نشانہ بنایا گیا۔