فلسطین پر اقواممتحدہ کی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ میں تباہی کے مقصدکے ساتھ منظم بھوک کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں ہے، بلکہ اسے”نسل کشی” کہا جانا چاہیے۔
البانیز نے ’ایکس‘پلیٹ فارم پر اپنے اکاؤنٹ پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ شیئر کی جس میں کہا گیا ہےکہ پچھلے مہینے اسرائیل نے روزانہ صرف 30 امدادی ٹرکوں کو غزہ کی پٹی میں داخلہونے کی اجازت دی۔
اسرائیل غزہ میںفلسطینیوں کو تباہ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ زندگی کے غیر پائیدار اور غیر انسانیحالات پیدا کرنا سب سے پیچیدہ اور ظالمانہ ہے۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ اسرائیل کے پاس فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں سے سب سےظالمانہ اور پیچیدہ غیر پائیدار اور غیر انسانی حالات زندگی پیدا کرنا ہے”۔
البانیز نے کہاکہ ’’اسے جنگ مت کہو۔ یہ نسل کشی ہے۔ فلسطینیوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا اسرائیلی مشن واضح ہے۔دوسرے ممالک کی ملی بھگتبھی واضح ہے”۔
سوموار کو اقواممتحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں ’انروا‘ کے کمشنر جنرلفلپ لازارینی نے کہا کہ اسرائیل نے گذشتہ اکتوبر کے دوران غزہ کی پٹی میں داخلے کیاجازت دینے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد کو کم کر کے صرف 30 ٹرک یومیہ کر دیا ہے۔
سات اکتوبر 2023ءکو جنگ شروع ہونے کے بعد سے، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے ساتھ گزرگاہوں کو بند کر دیاہے اور بنیادی سامان اور اشیاء کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
امریکی حمایت کےساتھ اسرائیل سات اکتوبر 2023ء سے غزہ پر نسل کشی کی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے جس میںتقریباً 146000 فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔10000 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔