اقوام متحدہ کیسلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں 50 سے زیادہ ممالک اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروختاور منتقلی روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان ممالک کا کہنا ہےکہ اس بات کے شبہے کی مناسب وجوہات موجود ہیں کہ یہ عسکری ساز و سامان غزہ اورمغربی جنارے میں استعمال کیا جائے گا جو تنازع کا شکار ہیں۔
یہ بات اقواممتحدہ کے زیر انتظام دونوں اداروں اور تنظیم کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو پیرکے روز بھیجے گئے ایک خط میں کہی گئی۔ خط میں مذکورہ ممالک نے اسرائیل پر الزامعائد کیا کہ وہ غزہ سمیت فلسطینی اراضی، لبنان اور بقیہ مشرق وسطیٰ میں بینالاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔
خط میں لکھا گیاہے کہ "قابض طاقت اسرائیل کی جانب سے ایک سال سے زیادہ عرصے سے بین الاقوامیقوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں کے سبب شہریوں کی ہلاکتوں کی حیران کن تعداد جس میںاکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے، یہ نا قابل برداشت اور نا قابل قبول ہے … ہمیںفوری طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے شدید انسانی المیے اور علاقائی عدماستحکام کو روکا جا سکے جو خطے میں ایک وسیع جنگ چھیڑنے کا خطرہ بن سکتا ہے”۔
خط میں سلامتیکونسل پر زور دیا گیا ہے کہ اس المیے سے گریز کے لیے فوری فائر بندی کا اعلان کیاجائے اور شہریوں کے تحفظ کے لیے سابقہ قرار دادوں پر عمل درآمد کے اقدامات کیے جائیں۔ساتھ ہی اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی روکنے کا واضح مطالبہ جاری کیا جائے۔
ادھر اقوام متحدہمیں اسرائیلی سفیر ڈینی دانون نے اس خط میں ترکی کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ "ہم ایسی ریاست سے کیا توقع کر سکتے ہیں جو شر پسندی سے مغلوب ہو کر شر کےمحور کی حمایت سے تنازعات بھڑکانے کی کوشش میں مصروف ہو؟”۔
یاد رہے کہ ‘شرکا محور’ کی اصطلاح پہلی مرتبہ سابق امریکی صدر جارج بش نے ايران، شمالی کوریا اورعراق کی طرف اشارے کے لیے استعمال کی تھی۔
ڈینی دانون نے ایکبیان میں واضح کیا کہ "ہم کسی بھی سیاسی یا فوجی حملے کے مقابل اسرائیلی ریاستکے مفادات کی خاطر مزاحمت جاری رکھیں گے