عالمی ادارہ صحت نےکہا ہے کہ غزہ کی پٹی پراسرائیلی جنگ میں زخمی ہونے والے کم از کم ایک چوتھائیلوگوں کو ایسے زخم لگے ہیں جنہوں نے ان کی زندگی بدل دی ہے انہیں زندگی بھر کے لیےمعذور کردیا ہے۔ ان زخمیوں میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
غزہ میں عالمیادارہ صحت کے نمائندے ریک پیپرکورن نےایک پریس بیان میں کہا کہ "زخمیوں کیبحالی کی ضروریات میں بہت زیادہ اضافہ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ صحت کا نظام مسلسل تباہ ہو چکاہے”۔
تنظیم نے ایک بیانمیں کہا ہے کہ غزہ میں تقریباً 22500 زخمی متعدد اور سنگین زخموں کا شکار ہیں، جنمیں سے بہت سے کے اعضاء کاٹے گئے ہیں۔ انکی بحالی کے لیے "بڑے پیمانے پر” علاج ضرورت ہوگی اوران کی بحالی میںبرسوں کا عرصہ لگے گا۔
ورلڈ ہیلتھآرگنائزیشن نے رپورٹ کیا کہ 13455 اور 17550 زخمیوں کے”اعضاء کی سنگین چوٹیں” ہیں جن کیفوری بحالی کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے غزہ میں بحالی کے کارکنوں کا ایک بڑا حصہ بےگھر ہو گیا ہے”۔
بحالی کی زیادہتر افرادی قوت بے گھر ہے اور رپورٹس بتاتی ہیں کہ 10 مئی تک 39 فزیو تھراپسٹ ہلاکہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کیرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً ایک سال کی جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں 3105اور 4050 کے درمیان زخمیوں کے اعضا کاٹے جانے کے ساتھ دیگر سنگین زخموں ، ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں، دماغیچوٹوں اور جسم کے جل جانے جیسے واقعات کا سامنا ہے۔
ساتھ ہی عالمیادارہ صحت نے خبردار کیا کہ غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے صرف 17 اس وقت جزوی طور پرکام کر رہے ہیں، جب کہ بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات اکثر عدم تحفظ، حملوں اوربار بار انخلا کے احکامات کی وجہ سے معطل یا ناقابل رسائی ہیں۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ اعضاء کی بحالی اور بحالی کے لیے وقف واحد مرکز، جو ناصر میڈیکل کمپلیکس میںواقع ہے اور اسے عالمی ادارہ صحت کی حمایت حاصل ہے، گزشتہ دسمبر میں سپلائیز اورسپیشلائزڈ ہیلتھ ورکرز کی کمی کی وجہ سے سروس سے باہر ہو گیا تھا۔
غزہ میں تنظیم کےنمائندے ریک پیپر کارن نے کہاکہ "بحالی کی ضروریات میں بہت زیادہ اضافہ اسوقت ہو رہا ہے کیونکہ صحت کا نظام مسلسل تباہ ہو رہا ہے”۔ مریضوں کو وہ دیکھبھال نہیں مل سکتی جس کی انہیں ضرورت ہے”۔
پیپرکورن نے ایکبیان میں وضاحت کی کہ "اہم معاملات کے لیے بحالی کی خدمات معطل ہیں اور پیچیدہزخموں کے لیے خصوصی دیکھ بھال دستیاب نہیں ہے، جس سے مریضوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں”۔