امریکی ایواننمائندگان کی مسلمان رکن الہان عمر نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی غزہکی پٹی میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات کے لیے اسرائیل کے دورے کےدوران تذلیل کی گئی۔
انہوں نے یہ باتایک پریس کانفرنس میں کہی۔ یہ پریس کانگرن شیکاگو میں رکن کانگریس کوری بش کے ساتھ منعقد کی تھی جہاںڈیموکریٹک پارٹی کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔
غزہ میں جنگ بندیاور قیدیوں کے تبادلے معاہدے کی تجاویز پر بات چیت کے لیے بلنکن کے دوروں کا حوالہدیتے ہوئے الہان نے کہا کہ "اب اپنے آپ سے پوچھیں۔ ہمارے وزیر خارجہ 11 بار کیسےاسرائیل کا سفر کر سکتے ہیں اور جنگ کے خاتمے کی بھیک کیسے مانگ سکتے ہیں۔ جب ہم اسرائیل کو بم اور ہتھیار فراہم کرتے رہتے ہیںتو جنگ بندی پر کیا بات ہوسکتی ہے؟”۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "ہم اس ذلت پر کیسے شرمندہ نہیں ہو سکتے جس کا سامنا ہماری انتظامیہکے نمائندوں کو ہوتا ہے؟۔ یہ کہنا کہ ہم بین الاقوامی قانون کا احترام کرتے ہیں نہصرف منافقانہ دعویٰ بلکہ ذلت آمیز بھی ہے”۔
الہان عمر نے امریکیصدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو غزہ میں اسرائیل کی طرف سے "نسل کشی کی جنگ کوتسلیم کرنے سے انکار” کرنے پر تنقید کی۔
بائیڈن کے اس بیانپر تبصرہ کرتے ہوئے کہ وہ "جنگ بندی کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں الہان عمرنے کہا کہ "انہیں ایسا بیان استعمال کرنے پر خود پر شرم آنی چاہیے، کیونکہ ہمیہ ہتھیار فراہم کر رہے ہیں”۔
انہوں نے واشنگٹن انتظامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ”اگر وہ واقعی جنگ بندی چاہتے ہیں تو انہیں اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کردینا چاہئیں۔ ورنہ یہ منافقت ہے”۔
اپنے حالیہ دوروںمیں اسرائیل اور حماس نے 15 اور 16 اگست کو قطری دارالحکومت دوحہ میں بالواسطہمذاکرات کیے، جس کا مقصد قیدیوں کا تبادلہ اور غزہ کی پٹی میں جنگ بندی تک پہنچناتھا مگر نیتن یاھو کی ہٹ دھرمی کے باعث ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔