جمعه 15/نوامبر/2024

عبرانی بولنے والے حماس کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کون ہیں؟

بدھ 7-اگست-2024

اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے پولٹ بیورو کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کئی مرتبہ اسرائیل کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان کو چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم پھر 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے ایک سمجھوتے کے نتیجے میں ان کو رہائی نصیب ہوئی۔

رہائی کے بعد السنوار ایک بار پھر حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈز میں سرگرم ہو گئے۔ وہ 2017 اور 2021 میں غزہ کی پٹی میں حماس کے سربراہ منتخب ہوئے اور اب اسماعیل ہنیہ کی موت کے بعد السنوار کو حماس کے سیاسی بیورو کا سربراہ چُن لیا گیا ہے۔

پیدائش اور پرورش

یحییٰ ابراہیم حسن السنوار سات اکتوبر 1962 کو غزہ پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم خان یونس اسکول میں حاصل کی اور پھر غزہ میں جامعہ اسلامیہ میں عربی زبان کے شعبے سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ السنوار کی شادی 21 نومبر 2011 کو ہوئی۔ ان کی اہلیہ سمر محمد ابو زمر غزہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سمر نے جامعہ اسلامیہ میں اصول الدین کے شعبے سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ السنوار کا ایک بیٹا ہے جس کا نام ابراہیم ہے۔

سیاسی سرگرمی

جامعہ اسلامیہ میں تعلیم کے دوران میں یحییٰ السنوار نے نمایاں طور پر طلبہ سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ وہ ‘الکتلہ الاسلامیہ’ کے سرگرم رکن تھے جو فلسطین میں الاخوان المسلون جماعت کی طلبہ شاخ ہے۔ وہ جامعہ اسلامیہ میں طلبہ کونسل کے صدر بھی رہے۔ بعد ازاں 1986 میں السنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی ہدایت پر خالد الہندی اور روحی مشتہی کے ساتھ مل کر "مجد” کے نام سے ایک سکیورٹی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کا کام قابض اسرائیلی فوج اور حکام کے لیے کام کرنے والے ایجنٹوں اور جاسوسوں کا پتا چلانا اور اسرائیلی انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کے افسران پر نظر رکھنا تھا۔

قید وبند کی صعوبتیں

یحییٰ السنوار پہلی مرتبہ 1982 میں 20 برس کی عمر میں گرفتار ہوئے۔ انہیں چار ماہ زیر حراست رکھا گیا اور رہائی کے ایک ہفتے بعد دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار وہ چھ ماہ تک عدالتی کارروائی کے بغیر جیل میں رہے۔ سال 1985 میں وہ ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور انھیں آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

جنوری 1988 میں وہ پھر سے گرفتار ہوئے اور اس بار ان پر دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا اور قتل کرنے اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کے شبہے میں چار فلسطینیوں کو موت کی نیند سلانے کا الزام تھا۔ السنوار کو چار بار عمر قید (426 سال کی مدت) کی سزا سنائی گئی۔ دوران گرفتاری انھوں نے حماس کے قیدیوں سے متعلق سپریم لیڈرشپ باڈی کی قیادت بھی سنبھالی۔

السنوار نے دو مرتبہ جیل سے فرار ہونے کی کوششیں کیں مگر وہ ناکام رہے۔ گرفتاری کے عرصے کے دوران میں انھیں صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ دماغ میں خون جم جانے کی وجہ سے ان کا 7 گھنٹے طویل آپریشن بھی ہوا۔

جیل میں تصنیف

یحییٰ السنوار نے جیل میں گزارے گئے 23 برس کے دوران میں مطالعہ، تعلیم و تالیف میں بھرپور وقت صرف کیا۔ اس دوران میں انھوں نے عبرانی زبان سیکھ لی اور اسرائیلی ذہنیت سمجھنے پر توجہ مرکوز کی۔ السنوار نے سیاست، سکیورٹی اور ادب کے موضوعات سے متعلق متعدد کتابیں بھی لکھیں۔

رہائی کے بعد سیاسی اور عسکری سرگرمیاں

یحییٰ السنوار 2011 میں اُن ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں میں شامل تھے جن کو ایک اسرائیلی فوجی ‘گیلاد شالیت’ کے بدلے رہا کیا گیا۔ اس سمجھوتے کو "وفاء الاحرار” کا نام دیا گیا۔ جیل سے نکلنے کے بعد السنوار نے حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈز میں ذمے داری نبھائی۔ انھوں نے تنظیم کے سیاسی دفتر اور بریگیڈز کی کمان کے درمیان رابطہ کار کے فرائض انجام دیے۔

سال 2015 میں حماس نے السنوار کو تنظیم کی حراست میں موجود اسرائیلی قیدیوں کے معاملے کا ذمے دار مقرر کیا۔ انھیں اس حوالے سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا کام سونپا گیا۔ اسی برس امریکا نے السنوار کو "بین الاقوامی دہشت گردوں” کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اسی طرح اسرائیل نے بھی السنوار کا نام اُن افراد کی فہرست میں ڈال دیا جو اسے غزہ کی پٹی میں ہلاک کرنے کے لیے مطلوب تھے۔

وہ 13 فروری 2017 کو غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ بنے۔ اس عرصے میں انھوں نے غزہ میں حماس تنظیم اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی نمائندہ ’فتح‘ تحریک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی۔ تاہم وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔ السنوار نے مصر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر بھی کام کیا۔ مارچ 2021 میں وہ دوسری مرتبہ غزہ میں حماس تنظیم کے سربراہ منتخب ہوئے۔

یحییٰ السنوار کے گھر کو کئی مرتبہ بم باری کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے 2012، 2014 اور 2021 میں ان کے گھر پر حملے کیے گئے۔ السنوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک محتاط شخصیت ہیں۔ وہ زیادہ گفتگو کرتے ہیں اور نہ علانیہ ظاہر ہوتے ہیں۔ السنوار قیادت کی اعلی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور حماس کے ارکان پر ان کی شخصیت کا گہرا اثر ہے۔

یحییٰ السنوار اور طوفان الاقصیٰ

گذشتہ برس سات اکتوبر کو ‘طوفان الاقصیٰ’ آپریشن شروع ہونے کے بعد یحییٰ السنوار اسرائیل کو مطلوب افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گئے۔ ان کے علاوہ القسام بریگیڈز کے کمانڈر انچیف محمد الضیف بھی مطلوب افراد میں سرفہرست ہیں۔ اسرائیلی ذمے داران السنوار کو سات اکتوبر کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ خیال کرتے ہیں۔

نومبر 2023 میں برطانوی حکومت نے حماس کے جن رہنماؤں کے اثاثے منجمد کرنے اور ان پر سفری پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اُن میں السنوار بھی شامل ہیں۔ اسی ماہ فرانس کے حکام نے چھ ماہ کے لیے السنوار کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔ غزہ کی جنگ کے دوران میں السنوار علانیہ طور پر ظاہر نہیں ہوئے۔ اسرائیلی اخبار "ہآریتز” کے مطابق انھوں نے غزہ میں یرغمال بعض اسرائیلی قیدیوں سے ملاقات کی اور ان سے عبرانی زبان میں گفتگو کی۔

چھ دسمبر 2023 میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک اعلان میں بتایا کہ اسرائیلی فوج نے السنوار کے گھر کا محاصرہ کر لیا تاہم وہ ان تک نہ پہنچ سکی۔

گرفتاری کا وارنٹ

رواں سال 20 مئی (2024) کو عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کریم خان نے درخواست دائر کی تھی کہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام کے تحت اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور فلسطینی تنظیم حماس کے تین رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔ حماس کے ان تین رہنماؤں کے نام محمد الضیف، اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ السنوار ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کے بعد حماس کی قیادت

گذشتہ ماہ 31 جولائی (2024) کو حماس نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے تنظیم کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایرانی دار الحکومت تہران میں ان کی قیام گاہ پر بم باری میں ہلاک کر دیا۔ وہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں میں شرکت کے سلسلے میں ایک وفد کے ساتھ تہران میں موجود تھے۔

اسماعیل ہنیہ کی تدفین قطر کے دار الحکومت دوحہ میں عمل میں آئی۔ بعد ازاں چھ اگست 2024 بروز منگل حماس نے اعلان کیا کہ تنظیم کی مشاورتی کمیٹیوں نے متفقہ طور پر یحییٰ السنوار کو حماس کا نیا سربراہ چن لیا ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی