جمعه 15/نوامبر/2024

غزہ کے لیے نظمیں کہنے والے پاکستانی شاعر کو خراجِ عقیدت

منگل 13-فروری-2024

ممتاز فلسطینی سکالر ڈاکٹر نمر سلطانی نے رواں ماہ لاہور کے دورے کے دوران پاکستان کے ایک عظیم شاعر فیض احمد فیض کو عزت سے نوازا اور فلسطینی تحریک اور عوام کے لیے ان کی خدمات اور خطے کے شعراء اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ان کی دوستی کو یاد کیا۔

ہارورڈ لاء سکول سے عدالتی سائنس میں ڈاکٹریٹ کے ڈگری یافتہ سلطانی اتوار کو فیض میلے میں شرکت کے لیے لاہور میں موجود تھے۔ یہ ایک سالانہ ثقافتی پروگرام ہے جس میں پاکستان کے ایک معروف اردو شاعر و دانشور اور سیاسی کارکن فیض احمد فیض کی زندگی اور کام کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

اتوار کو وہ ‘لہو کا پرچم: فلسطین-روز کی جنگیں’ کے نام سے ایک پینل مباحثے میں شریک ہوئے جو اس وقت پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخل تین نوجوان فلسطینی طلباء کے ساتھ گفتگو پر مبنی تھا۔ اس پینل کی میزبانی مصنف اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں قانون کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان صدیق نے کی۔

سلطانی نے عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا جو اس وقت ایس او اے ایس یونیورسٹی لندن میں پبلک لاء کے ریڈر ہیں، "مجھے یہاں [لاہور میں] فیض میلے میں آکر بہت خوشی ہوئی ہے اور یہ اس تعلق کی وجہ سے ہے جو پاکستان کے ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے فیض کا فلسطینی انقلاب اور فلسطین کی تحریکِ آزادی سے تھا۔”

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سابق چیئرمین یاسر عرفات کے ساتھ فیض کے قریبی تعلقات تھے اور انہوں نے اپنے ایک پوتے کا نام فلسطینی سیاست دان کے نام پر رکھا تھا۔ وہ مشہور عرب شاعر محمود درویش کے بھی قریب تھے جنہیں فلسطین کا قومی شاعر سمجھا جاتا ہے۔ فیض نے اپنی جلاوطنی کے سالوں کے دوران ایک اور پاکستانی دانشور اور کارکن اور ایک مشترکہ دوست اقبال احمد کے توسط سے فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید سے بھی ملاقات کی۔


1978 میں جب افریقی ایشیائی مصنفین کے میگزین لوٹس کے ایڈیٹر اور مصری مصنف یوسف السبائی کو قبرص میں قتل کر دیا گیا تو بیروت میں اپنی جلاوطنی کے دوران فیض اس کے اولین غیر عرب ایڈیٹر بنے۔

خود اپنی جلاوطنی اور نقصان سے پریشان اور غمزدہ فیض نے فلسطینیوں کے درد، غصے اور حوصلے کو آواز دینے والی طاقتور نظمیں لکھیں۔ یادگار نظموں میں "فلسطینی بچے کے لیے لوری” اور "فلسطینی شہداء جو پردیس میں کام آئے” شامل تھیں۔

سلطانی نے کہا، "انہوں نے نہ صرف فلسطین کے لیے نظمیں لکھیں بلکہ درحقیقت وہ بیروت میں 70 کے عشرے کے آخر میں اور 1982 کے اوائل میں رہے بھی۔ پھر اسرائیل کے لبنان پر حملے کی وجہ سے وہاں موجود دیگر فلسطینیوں کے ساتھ انہیں بیروت اور لبنان چھوڑنا پڑا۔

"تو یکجہتی کی یہ صورت [فیض کی طرف سے] اور عمومی طور پر انسانی آزادی کے مقصد اور خصوصاً فلسطین کی آزادی کی باہمی بُنت کی یہ شکل ہے جسے ہم ذاتی طور پر عزیز رکھتے ہیں اور اسے برقرار رکھنا اور فروغ دینا چاہتے ہیں۔”

سلطانی نے کہا وہ پاکستانی عوام کی فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل یکجہتی کے لیے شکر گذار ہیں:

"پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام عموماً غزہ اور فلسطین میں مصائب کو کم کرنے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، اسے بہت سراہا جائے گا کیونکہ یکجہتی کے یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ جن لوگوں پر ظلم ہو رہا ہے، جو نسل کشی اور نسل پرستی کی جنگ کا شکار ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ ان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے جس حد تک وہ کر سکتے ہیں، مدد کرتے ہیں۔”

فلسطینی طلباء جو پینل کا حصہ تھے، نے بھی اسرائیلی قبضے میں رہنے کے تجربات بیان کیے اور اپنے لیے پاکستانی ساتھیوں کی حمایت کی تعریف کی۔

لاہور میں یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے ایک طالب علم محمود یونس نے پاکستان میں رہنے والے غزہ کے طلباء کی روزمرہ کی تکلیف بیان کی جو نہیں جانتے کہ آیا ان کے خاندان غزہ میں اسریل کی بےدریغ فوجی مہم کے دوران زندہ ہیں یا نہیں۔ اس جنگ میں 7 اکتوبر سے اب تک 28000 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائی کا آغاز اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا جو عشروں میں اسرائیل کے لیے مہلک ترین دن تھا جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 240 کو غزہ میں یرغمال بنا لیا گیا۔

یونس نے کہا، "دو ہفتوں سے انہیں [فلسطینی طلباء] نہیں معلوم کہ ان کے خاندان زندہ ہیں یا نہیں اس لیے یہ بہت مشکل ہے۔”

یونیورسٹی آف لاہور (یو او ایل) کے فلسطینی طالب علم عزالدین عیاض نے کہا، "انہوں نے اکتوبر سے اب تک میرے آبائی گاؤں میں زیتون کے 600 درخت اکھاڑ دیے ہیں۔ زیتون کے چھ سو درخت حماس نہیں ہیں۔ ان کا کوئی نظریہ یا مذہب نہیں ہے۔ یہ (اسرائیل) محض ایک سلطنت ہے جو فلسطین کی قیمت پر اپنی سرزمین کو توسیع دے رہی ہے۔”

سول انجینئرنگ کے ایک فلسطینی طالب علم ابراہیم بلال نے کہا کہ انہوں نے پاکستان میں بہت سے احتجاجی مظاہرے کیے اور اپنے لوگوں کی مدد کے لیے متعدد مہمات میں حصہ لیا۔

انہوں نے کہا، "اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ اگر اپنے تجربے کی بات کروں تو میں نے یہاں پاکستان میں ہر آنکھ میں [فلسطین کے لیے] حمایت دیکھی ہے۔”

مختصر لنک:

کاپی