عالمی فوڈ چین میک ڈونلڈز نے اعتراف کیا ہے کہ اسے اسرائیل کی مبینہ حمایت پر مشرق وسطیٰ اور دیگر جگہوں پر کمپنی کے بائیکاٹ کی وجہ سے اپنے کاروبار پر ’بامعنی اثر‘ نظر آ رہا ہے۔
کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو کرس کیمپزنسکی نے لنکڈ اِن پر ایک پوسٹ میں بائیکاٹ کے اثرات کا اعتراف کرتے ہوئے اس ردعمل کی وجہ ’غلط معلومات‘ کو قرار دیا۔
وہ ایک بڑی امریکی فرم کے دوسرے سربراہ ہیں، جو اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے کاروباری نقصان سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میک ڈونلڈز کے علاوہ کافی چین سٹار بکس بھی متاثر ہوا ہے۔
کیمپکزنسکی نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ’مشرق وسطیٰ کی متعدد مارکیٹیں اور خطے سے باہر کی کچھ مارکیٹیں جنگ اور اس سے منسلک غلط معلومات کی وجہ سے بامعنی کاروباری اثرات کا سامنا کر رہی ہیں، جو میک ڈونلڈز جیسے برانڈز کو متاثر کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ مایوس کن اور غلط وجوہات ہیں۔ ہر اس ملک میں جہاں ہم کام کرتے ہیں، بشمول مسلم ممالک میں، میک ڈونلڈز کی مقامی مالکان آپریٹرز فخر سے نمائندگی کرتے ہیں۔‘
میک ڈونلڈز دنیا بھر میں اپنے چار ہزار سے زیادہ سٹورز میں سے زیادہ تر کو چلانے کے لیے ہزاروں مقامی کاروباری اداروں پر انحصار کرتا ہے۔ اس چین کے تقریباً پانچ فیصد مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں۔
سات اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد سے میک ڈونلڈز کے کارپوریٹ ہیڈکوارٹرز نے اپنا پروفائل کم رکھنے کی کوشش کی ہے اور کئی جگہوں پر جیسے کہ اسلام آباد میں نیا کاروبار کھولنے کا سلسلہ بھی موخر کردیا گیا ہے، لیکن یہ برانڈ اب بھی اس سب سے متاثر ہے۔
غزہ پر حملے کے فوری بعد اسرائیل میں میک ڈونلڈز نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی فوج کے ارکان کو ہزاروں مفت کھانے فراہم کر رہا ہے۔
اس کے بعد غزہ میں اسرائیلی فوج کی جارحیت سے ناراض افراد نے اس برانڈ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ بعدازاں کویت، ملائیشیا اور پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک میں چین کے مالکان نے اس برانڈ سے دوری ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔