یہ بات تو صاف ہے کہ اسرائیلی فوج اور خفیہ ادارے حماس کے ہفتے کے روز کیے گئے ایک بڑے اور اس کے بعد مسلسل راکٹ حملوں کے روکنے اورحماس کی اس یلغار کا پیشگی پتہ چلانے میں بری طرح ناکام رہا۔ اس سے اسرائیلی کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ اور اس کی فوجی قوت و مہارت بھی تنقید کی زد میں ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے میں اسرائیل کو اپنے ہمیشہ سے اتحادی چلے آنے والوں، سرپرستوں اور واضح طور پر اسرائیل کے لیے کے حق میں تعصب رکھنے والے بھی اسرائیلی کی اس بڑی ناکامی پر نہ صرف حیران و پریشان ہیں بلکہ بات بھی کر رہے ہیں کہ آخر اسرائیلی فوجی قوت کو ہوا کیا؟ کیوں اسرائیلی کا سارا فوجی اور اسلحی طمطراق حماس کے القسام بریگیڈ کے سامنے ڈھے کر رہ گیا۔ نتیجتاً اسرائیلی فوج اور فلسطینی مزاحمت کار حماس کے جنگجووں کے سامنے آنے میں نہ آ سکیں اور ناکام ہیں۔
بلاشبہ پہلے روز کی اس بڑی ناکامی اور بعد محض تین چار روز کے اندر ہی ریزرو فورس کو تین لاکھ کی تعداد میں نئی کمک کے طور پر بلانے پر مجبور ہونے ، یورپ میں موجود اسرائیلی فضائیہ کے سابقہ افسروں اور اہلکاروں کو بلا کر لانے کے لیے طیارے یورپ بھجوانے کا اعلان کر دینے کے علاوہ پانچوین روز بھی اپنی زمینی فوج کو مقابلے کے لیے جنگجووں کے مقابل اسرائیل کا نہ لانا۔ اس طرح کی تشویش و پریشانی کا باعث کم از کم اسرائیل کے حامیوں کے لیے ضروری ہے۔
اسرائیل کی فوج اور سلامتی سے متعلق ماہرین ابھی اپنے سرپرستوں اور حامیوں کی پریشانی و حیرانی سے بھرے سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکے ہیں۔ یہ سوالات اب مغربی و امریکی میڈیا سمیت خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں اٹھائے جارہے ہیں۔ کہ اسرائیلی فوج اس قدر ناکام اور بزدل کیوں ثابت ہوئی۔ فرانس کے ایک اخبار’ لی فگارو’ نے سوال اٹھایا ہے کہ غزہ کے گردا گرد اسرائیل نے 2018 سے 2021 تک اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے بہترین فولادی دیوار انتہائی زیادہ لاگت کے ساتھ بنائی تھی کیوں حماس کی القسام بریگیڈ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوگئی۔ فرانس کے اس اخبار کے مطابق اسرائیل نے یہ سخت فولادی دیوار 140000 ٹن فولاد سے قائم کی گئی تھی اور اس پرایک ارب ڈالر کی لاگت آئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا ایک اعلیٰ ترین جوہر کشید کر کے اسرائیل نے یہ آہنی دیوار بنائی تھی۔ اس میں ریڈارز نصب کیے گئے تھے۔ دیوار کے اوپر اور زمین کے نیچے غیر معمولی صلاحیت کے سنسر لگائے گئے تھے۔ لیکن فرانس کے جریدے اورینٹ کے ڈائریکٹر الین گریش نے کہا کہ "اسرائیل اس خوفناک حملے کے بعد ہل کر رہ گیا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے مقابلے میں فلسطینی غیر معمولی ضد اور ڈٹے رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی اسی استقامت نے مغربی لوگوں اور قابض لوگوں کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا "حیرانی کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی اس ناکامی پر پردہ ڈالنا کے لیے امریکہ اور مغربی دوستوں کے پیچھے چھپ رہا ہے اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور عام شہری آبادیوں اور شہریوں پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج زمین پر فلسطینی نوجوانوں کے سامنے آنے سے کترا رہی ہے۔”
ایلن گریش کے مطابق "جب بھی فلسطینی اپنے حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں تو مغربی دنیا ان کو دہشتگرد قرار دینے کا پرانا بیانہ سامنے لے آتی ہے جبکہ یوکرین کے لوگوں کی لڑائی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔”
انہوں نے خود اپنے ملک کے صدر میکرون پر بھی تنقید کی اور کہا کہ "میکرون نے اسرائیل پر فلسطینی حملے کی تو بہت زیادہ مزمت کی مگر اسرائیلی قبضہ کا کوئی ذکر نہیں کیا جو کہ در حقیقت اس سارے تشدد اور جنگ کا سبب ہے۔”
اسرائیل پوری ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتا ہو اور اس کے جھوٹ ایسے ہوتے ہیں کہ خود ان کا اگلا جھوٹ اس کی تردید کر رہا ہوتا ہے جبکہ مغربی میڈیا بغیر کسی تصدیق کے اسرائیلی پراپیگنڈا کو سچ باور کرانے کی کوشش کرتا رہتا۔ حالانکہ تھوڑے سے غور و فکر کرنے سے بھی اسرائیلی جھوٹ کا پول کھل سکتا ہے اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے بھی بار بار بولے ہوئے جھوٹوں کا پردہ آسانی سے چاک کیا جاسکتا ہے۔ مغربی میڈیا نہ صرف اسرائیل کے جھوٹے پراپیگنڈا کو پھیلاتا ہے بلکہ سچائی پر بھی ایسے سوال اٹھاتا ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیتا ہے۔
معروف امریکی ماہر تعلیم اور داشنور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ دنیا میں جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کو پھیلانے کا وطیرہ آج حکمت عملی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ جس کا ایک طریقہ سماج کو کنٹرول کرنے کا ہے۔جس کے لیے ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والے مواد پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اسے اپنی کے مطابق استعمال کرکے عوام کو دھوکہ دیا جاسکے۔
چومسکی کے مطابق سچ پر سوالیہ نشان لگا کر اس کی ساکھ کو مجروح کیا جاتا ہے اور اس کی جگہ جھوٹ کو شدت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح لوگوں کی اصل موضوع سے توجہ ہٹا دی جاتی ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کو اصل مسائل سے دور لے جایا جاتا ہے اور اپنی مرضی کے ایجنڈا کو آگے بڑھا لیا جاتا ہے۔ یہی کام اسرائیل اور اس کی ابلاغی مشینری کر رہی ہے۔
جھوٹ پر جھوٹ تخلیق کیے جاتے ہیں اور ان لوگوں کو تلاش کیا جاتا ہے جو ان جھوٹی خبروں پر بلا جھجک یقین کرلیتے ہیں۔ تاہم اسرائیل کا اپنی ناکامی کے بارے میں الجھاوا نہ صرف فوج کے اندر موجود ہے بلکہ عوام تک بھی چلا گیا ہے۔
جب اسرائیل کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ اس کا اندرونی محاذ کمزور ہورہا ہے تو وہ القسام کے خلاف پراپیگنڈا پر مبنی کچھ ویڈیوز سامنے لے آیا۔
حتی کہ ان ویڈیوز پر خود اسرائیلی صحافی بھی ان ویڈیوز کی سچائی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ایک اسرائیلی صحاف اورین زیو ان ویڈیوز کے بارے میں کہا ہے” میں ان ویڈیوز کے بارے میں بہت سے سوال رکھتا ہوں کہ حماس بچوں کے سر قلم کرتے کہ میں نے اس گاؤں میں جا کر ایسا کچھ نہیں دیکھا جو ویڈیو میں بیان کیا گیا ہے۔ حتی کہ اسرائیلی فوج کے متعلقہ کمانڈر اور ترجمان نے بھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔”