اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنا مذمتی بیان واپس لیں۔ اقوام متحدہ نے تاہم کہا ہے کہ جنین میں فوجی آپریشن سے متعلق مذمتی بیان واپس نہیں لیا جائے گا۔
عالمی ادارے کی قیادت اور اس کے رکن ملک اسرائیل کے مابین یہ اختلاف رائے اس وقت پیدا ہوا، جب اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے شہر جنین میں اسرائیلی فوج کی طرف سے چند روز قبل ایک عسکری آپریشن کیا گیا۔
اس فوجی آپریشن کا ہدف جنین میں واقع ایک فلسطینی مہاجر کیمپ تھا، جہاں اسرائیل کے مطابق جہادِ اسلامی سمیت کئی فلسطینی عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے ٹھکانے اور ہتھیاروں کے ذخیرے قائم کر رکھے تھے۔ یہ اسرائیلی فوجی آپریشن گزشتہ دو عشروں کے دوران ویسٹ بینک کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں کیا جانے والا سب سے بڑا فوجی آپریشن تھا۔
اسرائیلی سفیر کا اعتراض
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا خیال تھا کہ اسرائیل اس فوجی آپریشن کے دوران بہت زیادہ حد تک عسکری طاقت استعمال کر رہا تھا۔ اسی لیے انہوں نے ان دو روزہ فوجی کارروائیوں کی مذمت کی تھی۔
یہ مذمتی بیان اسرائیلی حکومت کو مناسب نہیں لگا تھا اور اسی لیے عالمی ادارے میں اسرائیلی سفیر نے مطالبہ کیا تھا کہ سیکرٹری جنرل گوٹیرش اپنا یہ بیان واپس لیں۔
اسرائیلی سفیر گیلاد ایردان نے سیکرٹری جنرل گوٹیرش کے اس بیان کو ”شرمناک، مبالغہ آمیز اور حقیقت سے بالکل کٹا ہوا‘‘ قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ جنین میں اسرائیلی فوجی آپریشن کا ”ہدف صرف اس قاتلانہ فلسطینی دہشت کا مقابلہ کرنا تھا، جس کے ذریعے معصوم اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کا موقف
اسرائیلی مطالبے کے جواب میں اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے نیو یارک میں کہا کہ سیکرٹری جنرل گوٹیرش اپنے جمعرات کے روز دیے جانے والے بیان پر قائم ہیں اور یہ بیان واپس نہیں لیا جائے گا۔
گوٹیرش نے جنین شہر میں فلسطینی مہاجر کیمپ میں اسرائیل کے زمینی فوجی آپریشن اور فضائی حملوں کی وسعت، شدت اور نوعیت پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آپریشن وسیع تر تباہی کا سبب بنا تھا۔
انٹونیو گرٹیرس کے مطابق جنین مہاجر کیمپ میں یہ فوجی آپریشن سو سے زائد عام شہریوں کے زخمی ہو جانے، ہزاروں دیگر کے بے گھر ہو جانے، کئی اسکولوں اور ہسپتالوں کو نقصان پہنچانے اور پانی اور بجلی کی سپلائی کے نظاموں تک میں تعطل کا سبب بنا تھا۔
ساتھ ہی عالمی ادارے کے سربراہ نے اسرائیل پر اس لیے بھی تنقید کی تھی کہ اس کارروائی کے دوران زخمی ہونے والوں کو طبی امداد حاصل کرنے سے بھی روکا گیا اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کرنے والے کارکن بھی ضرورت مند انسانوں تک نہ پہنچ سکے۔