ایک نئے نسلپرستانہ قانون کے ذریعہ قباض صہیونی ریاست فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرنے اور مزاحمتسے باز رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ نام نہاد قانون فلسطینی قیدیوں کو سزائےموت دینے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے جس پر عالمی سطح پر سخت رد عمل بھی آیا ہے۔
سیاسی فریبوں اورانتخابی وعدوں کےبعد صہیونی قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے صہیونی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ مل کرفلسطینی قیدیوں کی سزائے موت کے نام نہاد مسودہ قانون کی تیاری شروع کی۔ اس مسودےکی تیاری اور اس کی کنیسٹ میں حمایت کے لیے دائیں بازو کے عناصر پیش پیش ہیں۔
صہیونیوں کے اس اعترافکے باوجود کے یہ قانون فلسطینیوں کو مزاحمت سے باز رکھنے ناکام ثابت ہوگا قابضریاست اس قانون کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ حالانکہ صہیونی دشمن کو اچھی طرحاندازہ ہے کہ فلسطینی قوم آزادی کے لیے اپنی نسلوں کو پروان چڑھا رہی ہے اورنوجوان کسی چیز کی پرواہ کیے بغیر آزادی کے لیے جام شہادت نوش کرنے کو تیار ہیں۔
صہیونی کنسیٹ کی پبلکاتھارٹی نے بدھ (یکم مارچ) فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی ابتدائیمنظوری دی۔ قبل ازیں 26 فروری 2023ء کو اسرائیلیحکومت کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کو پارلیمنٹ میں لے جانےکی منظوری دی تھی۔
مسودہ قانون میںکہا گیا ہے کہ ایسا کوئی بھی فلسطینی جو اسرائیلی فوجیوں اور یہودی آباد کاروں کےقتل اوران کی املاک اور زمین پر قبضے کے لیے لڑائی کرتا ہے وہ قتل کا مستحق ہوگا۔
شدت پسند وزیر بنگویر اور قابض حکومت کے وزیر اعظم بنجمیننیتن یاہو کے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ "(نسل پرستانہ)قانون کے مطابق عدالت ان لوگوں پر سزائےموت عائد کرسکتی ہے جو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور یہودی آباد کاروں اوراسرائیلی فوجیوں کے قتل میں ملوث ہیں۔
بے فائدہ قانون
فلسطینی ماہرقانون احمد ابو زہری نے "مرکزاطلاعات فلسطین ” سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہفلسطینی قیدیوں کو سزائے موت سنانے کا مسودہ قانون صیہونی ریاست میں انتہا پسندی کیحالت کا ایک بدعنوان پھل ہے ، جو سیاسی فریب کاریوں کے پیشے کے ذریعہ منظور شدہنسل پرستی کے قوانین کے طویل سلسلے کی ایک نئی کڑی قرار دی جا سکتی ہے۔ اس قانونکی منظوری کا مقصد انتخابی وعدوں کے مطابق اسرائیل کے انتہائی دائیں بازوکےعناصرکی حمایت حاصل کرنا اور فلسطینیوں کو ان کی تحریک آزادی سے باز رکھنے کی مکروہکوشش کرنا ہے۔
انہوں نےاستفسارکیاکہ آپ ایسے فلسطینی کو کس طرح خوف زدہ کریں گے جو اپنی جان کی بازی پہلے ہی لگا چکاہے۔ اگر کوئی خوف زدہ ہو تو وہ دشمن پرحملہ کیوں کرے گا۔ شہادت فلسطینیوں کی پہلی تمناہوتی ہے جو میدان میں اترتے ہیں تو وہ شہادت کی آروز لے کر جاتے ہیں۔
ان کا ماننا تھاکہ بین الاقوامی برادری کی خاموشی اورعالمی برادری کی طرف سے اختیار کردہ شرمناک موقف نسل پرستانہ قوانین کی منظوری پرکارروائی اور زمین پر اسرائیلی ریاست کو جرائم کی اجازت دیتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پرزور دیا کہ قابض ریاست دراصل فیلڈ پر عملدرآمد کے جرائم کا اطلاق کرتا ہے جو انسانی حقوق کے بڑے اداروں کی شہادتوں کےمطابق ماورائے عدالت قتل کے مترادف ہے۔ اس طرح ایک نیا قانون جو اس حقیقت کو تبدیلنہیں کرے گا سوائے اس کے کہ وہ نسل پرستی کے سائز کے نئے ثبوت فراہم کرتا ہے اوراسرائیلی ریاست کی دہشت گردی کا نیا استعارہ ثابت ہوگا۔
فاشسٹ تبدیلیاں
فلسطینی اسیران کلبکے سربراہ قدورہ فارس نے "مرکزاطلاعاتفلسطین” سےبات کرتے ہوئےفلسطینی اسیران کی سزائے موت کے نام نہاد قانون کو ایکایسا اقدام قرار دیا جو اسرائیلی داخلی منظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں قابض ریاست کے ادارے کے اندربنیادی ڈھانچے میں گہری تبدیلیوںمیں ، اسرائیلی داخلی منظر نامےاور عام طور پر اس کی سفاکانہ ، حساس اور واضحفاشسٹ تبدیلیوں کو نمایاں کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہاسرائیل نے قانونی تحریروں کے ذریعہ خود کو نسل پرستانہ ریاست میں تبدیل کرلیا کیونکہیہ خصوصی طور پر قابض ریاست کے تحت لوگوں کے لیے نامزد کردہ قوانین کو قانون بناتاہے اور یہ قوانین صرف فلسطینیوں پر لاگوہوتے ہیں نہ کہ دوسروں پر۔
قابل ذکر بات یہہے کہ اس پر عمل درآمد کا قانون کئی دہائیوں سے اور خاص طور پر 1953 سے اسرائیلیقانون میں رہا ہے ، لیکن فوجی قابض حکام نےاس پرعمل درآمد نہیں کیا۔ اگرچہ عدالتوںکے ذریعے اس قانون پرعمل نہیں کیا گیا مگرحقیقت یہ ہے کہ صہیونی ریاست ماورائےعدالت فلسطینیوں کے قتل کی وارداتوں میں اس قانون پرروز اول سے عمل پیرا ہے۔
قدورہ فارس کامؤقف ہے کہ قابض ریاست نے اب تک قیدیوں کے خلاف سزائے موت دینے کا سہارا نہیں لیاہے ، فلسطینیوں سے محبت نہیں ، بلکہ اس احساس کے نتیجے میں کہ یہ قانون ان کی سلامتی میں اضافہ نہیں کرے گا ،لیکن اس کے برعکس اسرائیلی سلامتی کے لیے مزید تباہ کن ثابت ہوگا۔