اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نےامریکہ کے ایماء پر فلسطینی اراضی پر یہودی بستیوں کی تعمیر رکوانے سے متعلق اقوام متحدہ میں پیش کردہ قرارداد کا مسودہ واپس لینے پر فلسطینی اتھارٹی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اخباری بیان میں حماس کے ترجمان حازم قاسم نے ’’فلسطینی اتھارٹی کے اس اقدام کو فلسطین سے متعلق مسلمہ قومی موقف سے انحراف قرار دیا۔‘‘ انہوں نے کہا ایسا لگتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی امریکہ اور قابض اسرائیلی حکومت کے طرف سے دکھائے گئے سرابوں کی پیروی میں لگی ہوئی ہے۔ یہ رویہ فلسطینی عوام کے نقطہ نظر سے قطعاً ہم آہنگ نہیں۔
ترجمان کے بقول فلسطینی اتھارٹی کا مفت میں اسرائیل کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ دنیا کے سامنے اس کے قبیح چہرے کو روشن بنا کر پیش کرے گا۔ نیز اس اقدام سے اسرائیل کے ساتھ بدنما چہرے کی حامل نارملائزیشن کے عمل کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین کے چپے چپے سے اسرائیلی قبضہ ختم کروانے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
فلسطینی اتھارٹی کی درخواست پر متحدہ عرب امارات نے اتوار کے روز یو این سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ وہ اپنی اس قرارداد پر ووٹ کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے جس میں ’’مقبوضہ فلسطینی اراضی پر یہودی آبادکاری کے منصوبوں پر مکمل روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔‘‘
ایک ملتی جلتی پیش رفت سے متعلق عبرانی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی نگرانی میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس میں کشیدگی کو کم کرتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وللا نیوز ویب گاہ نے نامعلوم اسرائیلی عہدیدار کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ امریکی انتظامیہ نے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اپنے یکطرفہ اقدامات اگلے چند مہینوں تک معطل کرتے ہوئے سکیورٹی تعاون کا دوبارہ آغاز کریں تاکہ یہودی عید فسح اور رمضان المبارک کے دوران کشیدگی میں اضافے پر قابو پایا جا سکے۔