نام نہاد یونینآف ٹیمپل آرگنائزیشن نے 23 جنوری کو آنے والے "فروری کے عبرانی مہینے”کے آغاز میں مسجد اقصیٰ پر ایک بڑے دھاوے کا اعلان کیا ہے۔
"ہیکل گروپس” نے ہر عبرانی مہینے کے آغاز کو اپنے منصوبےاور مسجد اقصیٰ میں مرکزی دراندازی کے حصے کے طور پر شامل کیا ہے۔ جس کا مقصددراندازی کو تیز کرنا اور مسجد کو یہودیانے کے لیے نئے مواقع پیدا کرنا تھا۔
بنجمن نیتن یاہوکی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے قیام کے بعد سے "ٹیمپل گروپس” نےمسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنے مطالبات اور منصوبے ختم نہیں کیے ہیں بلکہ مطالباتتیز کردیے ہیں۔ ان مطالبات میں مسجد اقصیٰ پر دھاووں کے اوقات میں اضافہ، مسجد میںمکمل نماز اور بائبلی رسومات کی اجازت، جمعہ اور ہفتہ کو دھاووں کے لئے دروازہکھولنا اور مسجد اقصیٰ میں قربانی کی رسم کی اجازت دینے جیسے مطالبات زور پکڑ رہےہیں۔
الاقصیٰ اکیڈمیفار اینڈومنٹ اینڈ ہیریٹیج کے سربراہ الشیخ ناجح بکیرات نے کہا ہے کہ انتہا پسندہر عبرانی مہینے کے شروع میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنا مسجد کے خلاف اشتعال انگیزیکے مترادف ہے۔
فلسطینی نیوز ایجنسی’صفا‘نے بکیرات کےحوالے سے کہا کہ ان دنوں یہودیوں کے انتہا پسندانہ اقدامات اب زبانی اشتعال انگیزینہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ نہ صرف القدس بلکہ دنیا کے 2 ارب مسلمانوں کے لیے ایک بڑاچیلنج ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ یہ دراندازی مسلم امہ کے حقوق اور عقیدے پر ایک نیا وار اور حملہ ہے۔ دنیاکو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتہا پسند گروہوں کی طرف سے مسجد اقصیٰ پر حملہ کرنے کیتمام کالیں بین الاقوامی قانون سے انحراف ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے اسلامی کرداراور شناخت میں ایک اہم تبدیلی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی یہودی انتہا پسندوںکو قبلہ اول میں ان کے مذہبی طریقے کےمطابق نماز ادا کرنے کی اجازت دینا ہے۔
بکیرات نے خبردارکیا کہ مسجد الاقصیٰ کی حرمت اور اسلامی شناخت کو تبدیل کرنے سے القدس اور الاقصیٰکے مستقبل اور شہر میں ہمارے فلسطینیوں کا مستقبل بھی متاثر ہوگا۔
اس سے زیادہخطرناک بات یہ ہے کہ قابض حکومت مسجداقصیٰ پر دھاووں کو اپنانے والی حکومت بن چکیہے۔ وہ قوانین اور معاہدوں کو تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بکیرات کا کہنا ہے کہاردن کے سفیر پر اسرائیلی حملے اور انہیں الاقصیٰ میں داخل ہونے سے روکنے سے ظاہرہوتا ہے کہ اسرائیل کھلم کھلا مسجد اقصیٰ کے امور میں مداخلت کررہا ہے۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ اسرائیل نہ صرف مسجد اقصیٰ کے تقدس اور تشخص کو تبدیل کرنا چاہتا ہے بلکہمسجد اقصیٰ کی انتظامیہ اور اس کی سرپرستی کو بھی تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نےعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی مسجد اقصیٰ میں مداخلت روکنے کے لیے فوری مداخلت کرے۔ اوقاف اورمسجد اقصیٰ کے امور اور اس پر اردن کی سرپرستی کو تبدیل کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایاجائے۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ قابض پولیس نے حال ہی میں فلسطینی نمازیوں کو اس وقت نشانہ بنایا ہے جب وہمسجد اقصیٰ میں نماز فجر کی ادائیگی کے لیے جا رہے تھے اور ان میں سے کچھ کے مسجدمیں داخلے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
ناجح بکیرات نےکہا کہ ان اقدامات کے پیچھے قابض ریاست کا مسجد اقصیٰ میں عربوں کی موجودگی کو ختمکرنا ہے، کیونکہ اس نے نمازیوں کی مسجد تک رسائی میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں،ان کے ذاتی کارڈز ان سے لے لیے جاتے ہیں جس کا مقصد انہیں گرفتار کرنا اور انہیںعدالتوں میں گھسیٹنا اور ہراساں کرنا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہقابض کو اس بات کا پوری طرح علم ہے کہ نماز فجر کی ادائیگی کے لیے ان نمازیوں کیمسجد اقصیٰ میں آمد سے وہ ظہر کے وقت تک مسجد میں ٹھہریں گے اور یہی وہ چیز ہے جواس کے سامنے ایک انسانی رکاوٹ ہے اور یہ رکاوٹ یہودی آباد کاروں کوقبلہ اول میںداخل ہونے سے روکتی ہے۔