الجزیرہ سینٹرفار اسٹڈیز نے اسرائیلی امور کے ماہر ڈاکٹر صالح النعامی کا ایک مطالعہ جاری کیاہے جس کا عنوان "اسرائیل کی نئی حکومت: طاقت اور تنازعات کے ماحول میں تبدیلی”۔رکھا گیا ہے۔
اس تحقیق سے ظاہرہوتا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں نئی اسرائیلی حکومت کی بقا کا انحصار اسرائیلمیں مذہب اور ریاست میں مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کی قوتوں کی شرکت پر ہے۔ ۔
بنجمن نیتن یاہوکی نئی حکومت کے قیام کا اعلان ان اہم ترین سیاسی پیش رفتوں میں سے ایک ہے جواسرائیل کے 1948ء میں اعلان کے بعد سے دیکھی جا رہی ہے۔ اسرائیل ایک طرف ایسی پالیسیوںکو اپنانے کا رجحان رکھتا ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ کے ماحول میں بنیادی تبدیلیوںکا باعث بنیں اور دوسری طرف یہ اسرائیل میں مذہب اور ریاست کے درمیان تعلقات کینوعیت کو ختم کرتا ہے۔
نئی حکومت میں لیکوڈپارٹی کے علاوہ مذہبی تحریکیں بھی شامل ہیں ج جو”حریدی تحریک” سے تعلقرکھتی ہیں۔ حریدی تحریک ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق سے متعلق مسائل کو حل کرنے میںاپنی "فقہی” شدت کے لیے جانی جاتی ہے۔ حردلی تحریک کٹر فقہی ، عسکریتپسندی اور قوم پرست انتہا پسندی کی زندہ علامت ہے۔ مؤخر الذکر انتہا پسند قوم پرستمذہبی نظریات پر مبنی ہے جو فیصلہ کن طور پر زمین کو کنٹرول کرکے فلسطینی عوام کےساتھ تنازعہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
نئی اسرائیلیحکومت میں حریدی تحریک کی نمائندگی وزیر داخلہ اور صحت ربی آریہ درعی کی سربراہی میںچلنے والی "شاس” تحریک اور ہاؤسنگ کے وزیر ربی یتزاک گولڈکناف کی قیادتمیں "متحدہ تورات یہودیت” کرتی ہے۔ حریدی تحریکوں میں "یہودی پاورپارٹی ” جس کی قیادت داخلی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گوریر کر رہے ہیں اورمذہبی صیہونیت جس کی قیادت وزیر خزانہ بزلئیل سموٹرچ کررہے ہیں لیکوڈ کی سربراہیمیں قائم اتحادی حکومت میں شامل ہیں۔ اسرائیل کی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جس نے”حردلی” مذہبی تحریک کو زبردست اور فیصلہ کن اثر و رسوخ دیا۔
یہ مقالہ انوجوہات کی نشاندہی کرتا ہے جنہوں نے نیتن یاہو کو اپنی نئی حکومت کی تشکیل میں دائیںبازو کی مذہبی قوتوں پر انحصار کرنے پر مجبور کیا۔ اس رپورٹ میں ان اہم عوامل کاجائزہ لیا گیا ہے جو اسرائیلی حکومت کے فلسطینی عوام کے ساتھ تنازعات کے انتظام کےطریقے کو متاثر کریں گےاور ساتھ ہی ساتھ علاقائی چیلنجوں پر بھی بات کی جائے گی۔ یہمقالہ فلسطین اور اسرائیل کے علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات پر نئی حکومت کی پالیسیوںکے اثرات کے ساتھ ساتھ اس حکومت کی ہدایات کے نتیجے میں اسرائیلی معاشرے کی ہمآہنگی پر متوقع اثرات کی توقع کرتا ہے۔
مذہبی عناصرکے ساتھ نیتن یاہو کے اتحاد کا جواز
حالیہ انتخابات میںمذہبی صہیونی قوتوں نے اسرائیل کی تاریخ میں بے مثال کامیابیاں ریکارڈ کیں۔ مذہبیعناصرنے 32 نشستیں حاصل کیں جو کہ کنیسٹ نشستوں کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں۔ اسرائیلمیں گذشتہ مرتبہ ہونے والے انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے 22سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ "مذہبی صیہونیت پارٹی”کو پچھلے الیکشن کی نسبت حالیہ الیکشن میں دوگنا سیٹیں ملیں جس کے بعد اس کےکامیاب ہونے والے ارکان کی تعداد 14 ہوگئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ "یہودی انتہاپسندوں کی ” نمائندہ جماعتوں کا فلسطینی عوام کے ساتھ تنازع کے حوالے سے موقفانتہائی سخت ہے۔ حردلی تحریک کی قوتوں میں انہیں کٹر اور انتہا پسند سمجھا جاتا۔انہوں نے حالیہ الیکشن میں سات گنا زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ دوسری طرف لیکودپارٹی نے کنیسٹ میں اپنی نمائندگی تقریباً برقرار رکھی اور 32 نشستیں جیت کر سختگیرقوتوں کے ساتھ مل کرحکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کرلی۔ کا مطلب یہ ہے کہ مذہبیعناصرپارلیمانی اکثریت کا نصف ہیں جن پر نئی حکومت قائم ہے۔
حالیہ انتخاباتکے نتائج اسرائیلی معاشرے میں خاص طور پر آبادیاتی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوںکی عکاسی کرتے ہیں۔ الٹرا آرتھوڈوکس کے درمیان قدرتی تولید کی شرح سیکولر سے تینگنا ہے، حریدی خواتین کی اوسط شرح پیدائش سات ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حریم ہر 16سال میں اپنی تعداد کو دوگنا کرتے ہیں جبکہ باقی گروپ ہر 37 سال بعد اپنے آبادی کےوزن کو دوگنا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے انتخابی راؤنڈز میں مذہبی قوتوعںکی نمائندگی کو مضبوط بنانے کے لیے الٹرا آرتھوڈوکس تحریک کا تعاون بڑھے گا۔
سماجی گروپوں کےووٹنگ پیٹرن اسرائیلی نوجوانوں کے رویوں میں زیادہ "قوم پرست” انتہاپسندی کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ "یہودی پاور پارٹی” کیطرف سے حاصل کردہ عظیم کامیابی فوجیوں کے لازمی سروس میں ووٹ دینے کے نتیجے میںسامنے آئی۔ تقریباً 30 فی صد فوجیوں نے تحریک کے حق میں ووٹ دیا ۔ اسرائیلیاسکولوں میں تعلیمی عمل کے نتائج اور مذہبی مواد اور اقدار کی برتری نے یہودینوجوانوں میں "انتہا پسندانہ خیالات” کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا۔جس نے مذہبی قوتوں کی بڑھتی ہوئی حمایت میں اہم کردار ادا کیا۔
نیتن یاہو مذہبیانتہا پسند دائیں بازو کی قوتوں کے ساتھ اتحاد پر انحصار کرتے ہوئے اپنی نئی حکومتبنانے میں کامیاب ہوئے، وہ جس لیکود پارٹی کی قیادت کرتے ہیں اس میں اور دوسری دائیںبازو کی جماعتوں کے درمیان کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے جنہوں نے پچھلی حکومت بنائیتھی اور نفتالی بینیٹ اور یائر لیپڈ کی سربراہی میں۔ فوج داری کیسز اور بدعنوانیکے مقدمات جن میں نیتن یاہو پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے اس نے انہیں مذہبی انتہاپسندوں کی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نیتن یاہو کی کوشش ہےکہ کنیسٹ ایک ایسا قانون بنائے جو وزیر اعظم وزراء اور ارکان کو استغاثہ سے استثنیٰدے۔ یہ استثنیٰ اس وقت تک ملنا چاہیے جب تک وہ اپنے سرکاری عہدوں پر براجمان ہیں۔ اسنے اس قانون کو "فرانسیسی قانون” قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم فرانسیسیقانون کی منظوری سے قبل نیتن یاہو ایک اور قانون پاس کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو سپریمکورٹ کو کنیسیٹ کے نافذ کردہ قوانین پر نظرثانی کرنے کے اختیار سے محروم کر دےگا۔اس دوسرے قانون کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ فرانسیسی قانون کی غیر آئینی حیثیت پراعتراض نہ کرے۔ اس قانون کو "تغلب ” قانون کہا گیا ہے۔ واضح الفاظ میں یہقانون سپریم کورٹ کو اس اختیار سے محروم کر دیتا ہے کہ وہ کنیسٹ کے نافذ کردہ قوانینیا حکومت کے فیصلوں پر اعتراض کر سکے۔
لیکوڈ اور دائیںبازو کی مذہبی قوتوں کو چھوڑ کرباقی تمام اسرائیلی جماعتیں ان قوانین کے نفاذ کیمخالفت کرتی ہیں اور انہیں "اسرائیلی جمہوریت کو ختم کرنے کا نسخہ” اوربدعنوانی کو جائز قرار دیتی ہیں۔
اسرائیلی حکومتمیں شامل جماعتوں کے مذہبی نظریات ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ حکومت میں شامل جماعتیںغرب اردن کو یہودیانے اور القدس کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے لیےایک صفحے پر ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھحکومت میں شامل گروپ غرب اردن میں اسرائیلی حکومت اورفوج کی اجازت کے بغیر تعمیرکی گئی یہودی کالونیوں کو آئینی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ گروپ فلسطینیمملکت کےقیام اور فلسطینیوں کو اپنے وطن کی سرزمین پرخود مختاری دینے کے خلاف ہیں۔ان کے نزدیک فلسطینیوں کے ساتھ امن عمل کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ اسرائیل کے حکمراناتحاد میں شامل بعض جماعتیں مسئلہ فلسطین کی مخالفت میں انتہا پسندانہ موقف رکھتیہیں۔ اسرائیل کی مذہبی تحریک کا مطالبہ ہے کہ غرب اردن کے 60 فی صد رقبے پر مشتمل سیکٹر’سی’ کو اسرائیل میں ضم کیا جائے اور اسمیں بسنے والے فلسطینیوں کو ان کے تمام شہری حقوق سے محروم کردیا جائے۔
اسرائیل کی انتہاپسند مذہبی تحریک کو حکمران اتحاد کے سب سے زیادہ کٹرانتہا پسند کے طورپرجانا جاتاہے۔ اس انتہا پسند تحریک کے نزدیک فلسطینیوں کی ارض فلسطین میں بسنے کی کوئیگنجائش نہیں۔ اس کے منشور اور بنیادی مطالبات میں غرب اردن، بیت المقدس اور سنہ1948ء کے مقبوضہ علاقوں میںبسنے والے تمام فلسطینی عرب باشندوں کو علاقہ بدر کرنا اور سنہ 1967ء کی جنگ میںقبضے میں لیے گئے تمام فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کی عمل داری قائم کرنا ہے۔ یہگروپ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کا مذہبی مقام قرار دیتے ہوئے اسے یہودیوں کی ملکیتسمجھتا ہے اور اس کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا دعوے دار ہے۔ اس انتہاپسند تحریک کے نام نہاد لیڈر فلسطینی تحریک آزادی کوجرم قرار دیتے ہوئے فلسطینیمزاحمت کاروں کو سزائے موت دینے کے حامی ہیں۔ ان میں موجودہ اسرائیلی وزیر برائےقومی سلامتی ایتمار بن گوریر بھی شامل ہیں۔ بن گویر جیسے عناصر کا مطالبہ ہے کہاسرائیل کے خلاف مسلح جدو جہد کرنے والوں کو سزائے موت دینے کے ساتھ ان کےخاندانوں کو فلسطین بدر کردیا جائے اور ان کی تمام املاک ضبط کرلی جائیں۔ یہ گروپفلسطینی مجاھد قیادت کو قاتلانہ حملوں میں شہید کرنے کا بھی سخت حامی ہے۔
اتحادی جماعتوں کے معاہدے
بنجمن نیتن یاھوکی جماعت لیکوڈ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے درمیان حکومت کی تشکیل سے قبل معاہدےہوئے۔ ان معاہدوں میں سخت گیرمذہبی صہیونی قوتوں نے نیتن یاھو کے سامنے اپنےمطالبات پیش کیے اور ان شرائط اور مطالبات کو پورا کیے جانےکی یقین دہانی پر ہی وہحکومت کا حصہ بنے۔
ان شرائط اورمطالبات میں غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کی شرط بھی شامل تھی۔ ان معاہدوں اورشرائط میں غرب اردن پر اسرائیل کی مکمل خود مختاری کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ اسنوعیت کے مطالبات اسرائیل کی تاریخ میں ماضی میں کسی سیاسی جماعت نے حکومت میںشمولیت سے قبل پیش نہیں کیے مگر یہ غیرمسبوق اور غیرمعمولی مطالبات ہیں۔
اتحادی جماعتوںکے ساتھ معاہدے کی شرائط کے مطابق لیکوڈ حکومت غرب اردن میں یہودی آباد کاروں کیغیرقانونی طور پرقائم کردہ کالونیوں کو قانونی شکل دینے کی پابند ہے۔
معاہدوں کی شرائطکے تحت ایتمار بن گویر کو قومی سلامتی کا وزیر اور شدت پسند بزلئیل سموٹریچ کووزیرخزانہ کا قلم دان سونپنا شامل تھا اور انہیں یہ وزارتیں مل چکی ہیں۔وزارتداخلہ اور دفاع کی وزارتیں بھی شدت پسند عناصر کو دی گئی ہیں کیونکہ غرب اردن اورفلسطینی علاقوں پر عمل داری اور نئی یہودی کالونیوں کے قیام کے لیے ان عناصرکوحساس نوعیت کی وزارتیں دینا بھی ان کے مطالبات میں شامل تھا۔
اسرائیلی وزرا کا ذاتی پس منظر
اسرائیلی حکومتکے سخت گیراور متشدد منصوبوں پرعمل درآمد کےحوالے سے اسرائیلی حکومت کے وزرا کےپس منظرکو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیلی حکومتیاتحاد میں شامل شدت پسند وزرا کے پس منظر بھی کٹر مذہبی ہیں۔ بزلئیل سموٹریچ نے 1998ء میں سترہ سال میں ایکگروپ تشکیل دیا جس کا مقصد غیرقانونی طورپرقائم کردہ کالونیوں کو قانونی شکل دینےاور فلسطینی اراضی پرقبضے کو مضبوط کرنے کے لیے حکومت کی مدد کرنا تھا۔
اسی طرح قومیسلامتی کے وزیر ایتمار بن گوریر انتہا پسند یہودی ربی میئرکہانا کی قائم کردہ’کاخ‘ تحریک میں شامل رہ چکا ہے۔ یہ تنظیم اور اس کے مدارالمہام عناصرنے یہ مطالبہکیا کہ فلسطینیوں کو دوسرے عرب ملکوں میں نقل مکانی پرمجبور کیا جائے۔ یہ گروپفلسطینیوں کے خلاف نفرت پر اکسانےمیں پیش پیش رہا اور بن گویر بھی فلسطینیوں کےقتل عام میں ملوث رہا ہے۔ اسرائیلی پولیس نے ایتمار بن گوریر کے خلاف فلسطینیوں کےقتل اور اقدام قتل کے 53مقدمات میں فرد جرم عاید کی اور ان میں سے آٹھ مقدمات میں اسے باقاعدہ سزا ہوچکیہے۔
اسی سیاق میں یہبات قابل ذکرہے کہ اسرائیل کے دائیں بازو کے مذہبی حکومتی اتحاد اور لیکوڈ پارٹیکی ترجیحات میں فرق بھی دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح اسرائیل کی دائیں بازوں کی انتہاپسند قوتوں کےایجنڈے میں فلسطینیوں کو کچلنے کا مطالبہ نمایاں ہے وہیں نیتن یاھوکے نزدیک علاقائی چیلنجز میں ایرانی جوہری پروگرام اور ایران کے خطے میں بڑھتےاثرو نفوذ کو روکنا ہے۔
نیتن یاھو کےمقربین کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کی خطے کے حوالے سے پہلی ترجیح ایران کے جوہریپروگرام کو ناکام بنانا ہے۔ تاہم حکومت کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو کیقیادت میں حکمران جماعت لیکوڈ اور دوسری مذہبی جماعتوں کے درمیان ایجنڈے کیترجیحات میں نمایاں فرق دیکھا جا رہا ہے۔
جہاں تک عربممالک کے ساتھ تعلقات کا تعلق ہے تو نیتن یاھو نے حکومت کی تشکیل کے کچھ ہی روزبعد کہا کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ نئے معاہدے کریں گے۔