جمعه 15/نوامبر/2024

اتھارٹی کے خلاف پابندیاں منظم منصوبہ یا ردعمل؟مقابلہ کیوں کر ممکن ہے؟

اتوار 8-جنوری-2023

فلسطینی اتھارٹیپر قابض اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ نئی پابندیوں کے باوجود رام اللہ اتھارٹی نےاسرائیل کے لیے اپنی سکیورٹی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا۔ حالانکہ اسرائیل کے مسلسلجرائم کے باوجود فلسطینی قوم اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنے کامطالبہ کرتے ہیں۔

اسرائیل کےانتقامی حربوں کے باوجود اگرچہ سکیورٹی کوآرڈینیشن ابھی بھی جاری ہے۔ سیاسی گرفتاریاںاور مزاحمت کاروں ، طلباء اور کارکنوں کے خلاف محض سیاسی اختلاف کی وجہ سے انتقامیکارروائی جاری ہے، لیکن یہ سب کچھ نئی صہیونی حکومت کےاختیار میں مداخلت نہیں۔اقوام متحدہ نے حال ہی میں دی ہیگ کی عالمی عدالت انصاف کو ایک سفارش ارسال کی۔ یہسفارش 78 ارکان کی اکثریت سے ارسال کی گئی ہے جس میں عالمی عدالت سے کہا گیا ہے کہوہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی غیرقانونی بستیوں کے حوالے سے اپنی رائے دے۔

تاہم بنجمن نیتن یاہوکی قیادت میں نئی صہیونی غاصب حکومت کو فلسطینی اتھارٹی کو نئے اقدامات اور تعزیراتکا نشانہ بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔

سزائیں اور دھمکیاں

قابض وزیر اعظمبنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ فلسطینیوں کے خلاف بینالاقوامی ٹریبونل میں جانے کے بعد پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

بیان کے مطابق قابضحکومت نے ہلاک ہونے والے صہیونی آباد کاروں کے اہل خانہ کے لیے کلیئرنگ فنڈز سےتقریباً 139 ملین شیکل تقریباً 39 ملین ڈالر کی کٹوتی کرنے اور ایریا ’C‘ میں فلسطینیوں کی تعمیرات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سیکٹر مقبوضہمغربی کنارے کے تقریباً 60 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ اسرائیل نے بعض اہم فلسطینی شخصیاتکو محروم کرنے کے لیے ان کو ملنے والی مراعات بھی بند کردیں۔

صرف یہی نہیںبلکہ قابض وزیر خارجہ ایلی کوہن نے فلسطینی اتھارٹی کو دھمکی دی کہ بین الاقوامی میدانمیں اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی اُنہیں بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

اسرائیلی وزیرخزانہ بیزلیل سموٹریچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے کہا کہ فلسطینیاتھارٹی کے خلاف پابندیاں صرف شروعات ہیں، وہ امید کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے خلافمزید اقدامات کیے جائیں گے جو "دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں اور اسرائیل پر دباؤڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ "

رد عمل نہیں ایک منظم منصوبہ ہے

فلسطینی سیاسیتجزیہ نگار اور مصنف ابراہیم المدھون کا خیال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے خلاف صہیونی پابندیاں بینالاقوامی ٹریبونل میں جانے کا ردعمل نہیں ہے بلکہ فلسطینی اتھارٹی کو سیاسی طور پر کمزور کرنے،اسے کمزور کرنے اور اسے سکیورٹی کے کردار تک محدود کرنے کا ایک منظم منصوبہ ہے۔

المدھون نےمرکزاطلاعات فلسطین کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو یہجان لینا چاہیے کہ وہ جو کچھ بھی کرے، وہ نیتن یاہو اور بن گویر کی حکومت کو مطمئننہیں کرے گی، اس کے برعکس نئے مطالبات، پابندیاں اور جرمانے عائد ہوں گے۔

انہوں نے زور دےکر کہا کہ موجودہ قابض حکومت فلسطینی شراکت دار کو نہیں دیکھتی، اور اتھارٹی کےساتھ سابقہ معاہدوں میں غلطیاں دیکھتی ہے۔ جنہیں درست کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اب وہ ہر اس چیز پر حملہ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے جو فلسطینی ہے، حتیٰ کہ اس اتھارٹیپر بھی جو اس کی سکیورٹی مدد کررہی ہے۔ اس پر حملہ کرنے اور اس کا محاصرہ کرنے اوراس کے کردار کو کم کرنے اور اسے سکیورٹی کے کردار تک محدود کرنے کا کام کرتی ہے جوقابض ریاست کی خدمت کرتا ہے۔”

مزاحمت کیسے کی جائے؟

فلسطینی تجزیہنگار اور مصنف ابراہیم المدھون کا خیال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی جو کچھ بھی پیش کرے،اس سے موجودہ انتہا پسند صہیونی حکومت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوںنے اتھارٹی پر زور دیا کہ وہ اندرونی ہم آہنگی کی طرف بڑھیں، فلسطینیوں کی صفوںمیں اتحاد کی کوشش کرے۔ صہیونی بلیک میلنگ کا شکار نہ ہو۔

ان کا کہنا ہے کہاسرائیل کی موجودہ حکومت فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد کے ایک موقع کے طور پر دیکھتاہے۔ خاص طور پر الجزائر میں گذشتہ سال ہونے والی مفاہمتی کانفرنس کے بعد کے بعدفلسطینی دھڑوں میں اتحاد قائم کیا جائے۔

انہوں نے قومی اقدامکو مضبوط بنانے اور انتہا پسند حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع قومی منصوبہتیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

المدھون نے کہاکہ "فلسطینی صدرمحمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی کے رہ نماؤں کو یہ جان لیناچاہیے کہ وہ صہیونی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں، خاص طور پر یہ کہ ہم اس مرحلے پر ہیںجہاں صہیونی فیصلے کی قیادت نیتن یاہو، بن گویر اور دیگر جیسے شدید انتہا پسند کررہے ہیں۔”

فلسطینی مصنفذوالفقار سویرجو کا کہنا ہے کہ فوری طورپر "گول میز” کانفرنس کا مطالبہ حب الوطنی ہے۔ اس اسرائیلی حکومت کامقابلہ کرنے کے بارے میں بات کرنے کے لیے ایک فوری قومی منصوبہ تیار کرنا ضروریہے، حقیقی قومی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دینا جو آئندہ سفارتی، سیاسی اور میدانی جنگکے لیے پروگرام ترتیب دینے کے قابل ہوں۔

انہوں نے زور دےکر کہا کہ اس کے لیے PLO کے تمام اداروںکی تنظیم نو اور جغرافیہ کے مطابق کاموں کی تقسیم کی ضرورت ہے۔ تاکہ تمام فلسطینیاندر اور باہراس میں شریک ہوں۔

انہوں نے”دو ریاستی حل” سے متعلق تمام پرانے وہموں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زوردیا اور ایک مکمل مزاحمت پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا جس میں تمام فلسطینیشرکت کریں اور فلسطینی سفارتخانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے محاذ پر سفارتی کردارادا کریں۔

مختصر لنک:

کاپی