فلسطینیوں اور آزادی و انصاف پسند تنظیموں کی طرف سے آسٹریلیا کے مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں تازہ اعلان کی پذیرائی کی جارہی ہے ‘ کہ مقبوضہ بیت المقدس میں آسٹریلیا اپنا سفارتخانہ نہیں کھولے گا۔ ‘
فلسطینی اتھارٹی کے وزیر برائے شہری امور حسین الشیخ نے بھی آسٹریلیا کی طرف سے مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کے لیے کمٹنٹ کے اظہار کا خیر مقدم کیا ہے۔
واضح رہے آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے پچھلی حکومت کے اس اعلان کو واپس لے لیا جس میں امریکی پیروی میں اسٹریلیا نے بھی تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی کے وزیر برائے شہری امور نے کہا ‘ اس اعلان سے یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ یروشلم کی مستقبل میں حامیت کا فیصلہ بین الاقوامی سطح کی قانونی منظوری سے وابستہ ہے۔ اس سلسلے میں آسٹریلوی قیادت کا تازہ فیصلہ قابل ستائش ہے۔’
ادھر آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے کہا تھا پینی وونگ نے اعلان کیا تھا کہ یروشلم کا فیصلہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ہونا چاہیے، یکطرفہ طور پر نہیں۔ ‘
وزیر خارجہ آسٹریلیا نے مزید کہا ‘ ہم ایسی سوچ کی حمایت نہیں کرتے جو دوریاستی حل کے مسلمہ اصول کو کمزور کرنے والی ہو۔ اس لیے آسٹریلوی سفارتکانہ تل ابیب میں ہی رہا ہے اور وہیں رہے گا۔’
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم یائر لیپڈ نے آسٹریلا کے اس اعلان کو جلدی کا رد عمل کہا ہے۔ یائر لیپڈ کے دفتر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یروشلم اسرائیلی کا ہمیشہ کے لیے دارالحکومت ہے اسے کوئی کبھی تبدیل نہیں کر سکتا۔
واضح رہے آسٹریلیا کی دائیں بازوکی سابقہ حکومت نے وزیر اعظم سکاٹ موریسن کے زیر قیادت امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیروی میں 2018 میں سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا یکطرفہ اعلان کیا تھا۔
اس کی وجہ سے آسٹریلشیا کو اندرونی طور پر بھی سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور آبادی کے اعتبار سے سب بڑے مسلمان ملک اور آسٹریلوی پڑوسی انڈونیشیا کے ساتھ بھی تنازعہ شروع ہو گیا۔ انڈونیشیا نے آسٹریلیا کے ساتھ تجارتی معاملات بھی محدود کر لیے تھے۔
اب آسٹریلیا کے اس نئے اعلان کی فلسطینیوں کے علاوہ آزادی پسند اور انصاف پسند عالمی برادری کی طرف سے بھی پذیرائی کی جارہی ہے۔ البتہ اسرائیل کو تکلیف ہوئی ہے۔