قابض اسرائیلی فوجنے اللد کی جامع مسجد کے امام الشیخ یوسف الباز کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ انہیں4 ماہ کی نظربندی کے بعد گھر میں نظر بند کر دیا جائےگا۔
الباز کو گذشتہ30 اپریل کو اللد شہر میں ان کے گھر سے "قابض افواج کے خلاف اکسانے” کےبہانے گرفتار کیا گیا تھا، کیونکہ انہوں نے مسجد اقصیٰ پر آباد کاروں کے دھاوے کےبعد ایک تقریر میں اسرائیلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ یہودیآباد کاروں کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
الباز کو دوعدالتی مقدمات کا سامنا ہے جن کا مرکز "نفرت پر اکسانے” کے الزامات ہیں۔پہلا الزام "ھبہ الکرامہ” تحریک کے واقعات کے دوران کا ہے جو مئی 2021 میںپھوٹ پڑی تھی اور دوسرا، رمضان کے دوران مسجد اقصیٰ پر آباد کاروں کے دھاووں کےتناظر میں ان کی تنقید کے رد عمل میں ان پرقائم کیا گیا ہے۔
64 سالہ الشیخالباز حافظ قرآن ہیں، اور مقبوضہ اندرون میں اسلامی تحریک کے رہ نماؤں میں شمارکیے جاتے ہیں۔ نیز ایک امام، مبلغ اور مصلح کا درجہ حاصل رہا ہے۔
قابض حکام الشیخ یوسفپر ان کے قومی تصورات اور مستقل مزاجی کے لیے مقدمہ چلا رہے ہیں۔ کیونکہ وہ مسجداقصیٰ کے مقصد کی حمایت میں ثابت قدم رہے، اور شہریوں سے اپیل کی کہ وہ للد، رملہ،القدس، یافا،جزیرہ النقب، مثلث اور الجلیل میں اپنی زمینوں پر ثابت قدم رہیں۔
الشیخ یوسف البازکو کئی بار اسرائیلی فوج کی طرف سے گرفتاری کے بعد جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہبنایا گیا۔